وفا شعار تھے ہم نے وفا کو عام کیا کہ بے وفائوں کا بھی دل سے احترام کیا تمہاری چاہ نے کتنا عجیب کام کیا مجھی سے چھین کے مجھ کو بس اپنے نام کیا تمام عمر یونہی پرسکون بیت گئی نہ خود ہوئے ہیں نہ ہم نے کسی کو رام کیا لکھا جو لفظ بھی دل سے ترے لیے ہی لکھا کہ تیرا ذکر ہی بس میں نے صبح و شام کیا نہ جانے شہر میں کب آئے وہ چلے بھی گئے عبث ہی ہم نے یہ اس درجہ…
Read MoreTag: نائیلہ راٹھور
نائیلہ راٹھور ۔۔۔ ماسک
مجھے بچپن میں جگنو پکڑنا بہت اچھالگتا تھا سرِ شام گھر سے نکل جاتی جلتی بجھتی قمقموں جیسی روشنیوں والے ٹمٹماتے جگنو مٹھی میں چھپا لیتی جلتی بجھتی روشنیاں ہتھیلیوں کو چھوتیں تو آنکھیں بھی ستاروں سے بھر جاتیں مگر اب جگنو کہیں کھو گئے ہیں زمیں کی کثافت سے ستارے بھی دھندلا گئے ہیں جذبے خلوص سے عاری ہیں شہر کے لوگ ماسک پہن کر باہر نکلتے ہیں فضا میں وقت نے کتنی کثافتیں بھر دی ہیں اس لیے احتیاط بہتر ہے اس سے پہلے کے آپ خود کو…
Read Moreنائیلہ راٹھور ۔۔۔نظم
گئے وقتوں میں ہم دوست ہوا کرتے تھے ایک دوسرے کے سنگ وقت بِتانے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے پہروں بیٹھ کر نہ ہنسنے والی باتوں پر بھی ہنستے رہنا کتنا اچھا لگتا تھا پھر جانے کب سب وقت کے سیل رواں میں بہہ گیا جانے کہاں کھو گئے فرصت کے وہ روز وشب اور اب تو یہ عالم ہے کہ تمہارے فون کا نمبر بھی ذہن کی سلیٹ سے ڈیلیٹ ہو چکا ہے اگر کبھی سر راہ مل بھی جائوتو دل کو خوشی کے ساتھ ایک نامعلوم سی اجنبیت گھیر…
Read Moreنائیلہ راٹھور ۔۔۔ اداسی کے رنگ
اداسی کے رنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیال کی چادر پر اداس جذبوں کے دھاگے سے کاڑھی نظم نگاہوں کے گوشے بھگو دیتی ہے احساس کی چبھن پوروں پر محسوس کر کے روح بھی ژولیدہ لمحوں کے لمس سے افسردہ ہو جاتی ہے تخئیل کے کاغذ پر آنسوؤں کے نشان ستاروں کی مانند دمکتے ہیں من کے اندھیرے آنگن میں اجالا جاگنے لگتا ہے محبت خوابیدہ آنکھوں سے یادوںکے کینوس پر اداسی کے پھول کاڑھتی ہے فضا میں گھمبیر تنہائی کی چاپ اور خامشی کی دستک کا الوہی فسوں بکھرا ہے ”اداسی کے…
Read Moreنائیلہ راٹھور ۔۔۔ کچھ بھی تو زندگانی میں ویسا نہیں رہا
کچھ بھی تو زندگانی میں ویسا نہیں رہا تھا مان جس پہ اب وہی رشتہ نہیں رہا خوابوں نے نیند میں کئی رستے بنا لیے دل تک جو جا سکے وہی رستہ نہیں رہا معدوم کر دیا ہے سبھی کچھ تو وقت نے افسوس کوئی نقشِ گزشتہ نہیں رہا رکھتا ہے بغض دل میں وہ یہ جانتی ہوں میں پہلے سا مجھ سے گرچہ کبیدہ نہیں رہا آئے گا لوٹ کر نہ پکاریں گے ہم اسے سب کچھ رہا وہیں ترا وعدہ نہیں رہا
Read More