واجد امیر … بُجھے ہوئے تھے کئی دل چراغ جَل رہے تھے

بُجھے ہوئے تھے کئی دل چراغ جَل رہے تھے ہم اپنے چہرے نہیں آئینے بدل رہے تھے کوئی وہاں سے مکاں چھوڑ کر چلا گیا تھا ہم اُس گلی میں بہت دور تک نکل گئے تھے زمیں ، زمانہ ،زیاں کی زبان بولتا تھا یقیں کی ڈور میں اُلجھے گُماں پھسل رہے تھے ہوائیں مِل کے اندھیرے سے بین کررہی تھیں چراغ اپنی لَویں تھام کر سنبھل رہے تھے کسی کا حُسن بہت پاس سے بُلا رہا تھا کسی کے دِل کو کئی مسئلے مسَل رہے تھے کوئی کنویں سے…

Read More