اعجاز روشن ۔۔۔ اُمید اہلِ شہر کی بَر آئے کس طرح

اُمید اہلِ شہر کی بَر آئے کس طرح شاخِ ریا پہ سچ کا ثمر آئے کس طرح باہر تو منجمد ہیں اندھیرے قدم قدم اندر سے روشنی کی خبر آئے کس طرح سودا ہے جس کے سر میں ابھی آسمان کا وہ میرے ساتھ خاک بسر آئے کس طرح دل تو پگھل رہے ہیں تری اک نگاہ سے پتھر میں تیرا درد اُتر آئے کس طرح روشن بجھی ہے دھوپ تو اُس کی منڈیر پر سائے مرے وجود میں در آئے کس طرح

Read More

اعجاز روشن ۔۔۔ ہیں ایسے لوگ جو دل میں دعا نہیں رکھتے

ہیں ایسے لوگ جو دل میں دعا نہیں رکھتے وہ اپنا ظاہر و باطن ہرا نہیں رکھتے ہو عشق بازی کسی سے کہ ہو سخن سازی ہم اپنی سانس کہیں بھی پُھلا نہیں رکھتے یہ ٹھیک ہے کہ تمھیں غم اثر نہیں کرتے میں کیسے مان لوں کہ دل بھرا نہیں رکھتے جو اہلِ ظرف ہوں بڑھتے چلے ہی جاتے ہیں سفر کی دھول سروں پر اُٹھا نہیں رکھتے اُنھیں ہے زعم بُہت مال و زر وہ رکھتے ہیں مجھے یقیں کہ وہ کوئی خُدا نہیں رکھتے اُلجھ نہ پڑنا…

Read More

اعجاز روشن ۔۔۔ کیا عکس اور ان کے راز پڑھوں

کیا عکس اور ان کے راز پڑھوں آئینہ خود غماز پڑھوں جو ہمرو میری فکر کے ہوں ان لفظوں کی پرواز پڑھوں کیا سحر ہے دل کی آتش میں پتھر کے بیچ گداز پڑھوں تُو تتلی محوِ غنچہ ہو اور میں تیرے انداز پڑھوں لا دوست بچھا دامانِ قبا میں اس پر آج نماز پڑھوں اُڑ خوشبو تیرے رنگ چنوں کھل رنگ ، تری آواز پڑھوں

Read More

اعجاز روشن ۔۔۔ نہ کچھ تدبیر ہے باقی نہ کچھ تسخیر کرنے کو

نہ کچھ تدبیر ہے باقی نہ کچھ تسخیر کرنے کو ہے اک منظر مرے آگے نظر تصویر کرنے کو ابھی تو وقت کی انگڑائی بھی ٹوٹی نہیں یارو ابھی سے ڈھونڈتے ہو راستے تاخیر کرنے کو الگ کیوں اہلِ دنیا سے سجا کے خواب بیٹھے ہو کہ دنیا لازمی ہے خواب کی تعبیر کرنے کو گدازِ دل بھی ہو شامل تو ہو احساس بھی زندہ فقط اینٹیں نہیں ہوتی ہیں گھر تعمیر کرنے کو یہ سب کہتے ہیں باتوں سے کہاں حالات بدلے ہیں سبھی کہتے تو ہیں لیکن فقط…

Read More