اعجاز روشن ۔۔۔ نہ کچھ تدبیر ہے باقی نہ کچھ تسخیر کرنے کو

نہ کچھ تدبیر ہے باقی نہ کچھ تسخیر کرنے کو
ہے اک منظر مرے آگے نظر تصویر کرنے کو

ابھی تو وقت کی انگڑائی بھی ٹوٹی نہیں یارو
ابھی سے ڈھونڈتے ہو راستے تاخیر کرنے کو

الگ کیوں اہلِ دنیا سے سجا کے خواب بیٹھے ہو
کہ دنیا لازمی ہے خواب کی تعبیر کرنے کو

گدازِ دل بھی ہو شامل تو ہو احساس بھی زندہ
فقط اینٹیں نہیں ہوتی ہیں گھر تعمیر کرنے کو

یہ سب کہتے ہیں باتوں سے کہاں حالات بدلے ہیں
سبھی کہتے تو ہیں لیکن فقط تقریر کرنے کو

روایت ہی کا تو اک جبر ہیں یہ نیکیاں اپنی
وگرنہ دل مچلتا رہتا ہے تقصیر کرنے کو

گِلے سب مٹ گئے روشن یوں بے توقیر رہنے کے
کہ اب باقی نہیں کچھ بھی یہاں توقیر کرنے کو

Related posts

Leave a Comment