اعجاز روشن ۔۔۔ ہیں ایسے لوگ جو دل میں دعا نہیں رکھتے

ہیں ایسے لوگ جو دل میں دعا نہیں رکھتے
وہ اپنا ظاہر و باطن ہرا نہیں رکھتے

ہو عشق بازی کسی سے کہ ہو سخن سازی
ہم اپنی سانس کہیں بھی پُھلا نہیں رکھتے

یہ ٹھیک ہے کہ تمھیں غم اثر نہیں کرتے
میں کیسے مان لوں کہ دل بھرا نہیں رکھتے

جو اہلِ ظرف ہوں بڑھتے چلے ہی جاتے ہیں
سفر کی دھول سروں پر اُٹھا نہیں رکھتے

اُنھیں ہے زعم بُہت مال و زر وہ رکھتے ہیں
مجھے یقیں کہ وہ کوئی خُدا نہیں رکھتے

اُلجھ نہ پڑنا سمجھ کر ہمیں بس اک شاعر
اگرچہ اپنا گریباں کُھلا نہیں رکھتے

Related posts

Leave a Comment