مسعود منور ۔۔۔ جو ہُوا صاف صاف لکھا ہے

جو ہُوا صاف صاف لکھا ہے تجھ سے ہر اختلاف  لکھا ہے گو تلفظ نہ تھا درست اپنا پھر بھی ہر شین قاف لکھا ہے مجھ سے جو گفتگو میں چھوٹ گیا سارا لاف و گزاف لکھا ہے ففٹی ففٹی تھے تیرے میرے گناہ میں نے بھی ہاف ہاف لکھا ہے برفباری میں خوفِ سرما سے تجھ کو اپنا لحاف لکھا ہے کیس میں قتلِ عاشقاں کے تجھے میں نے وعدہ معاف لکھا ہے آڑے ترچھے خطوط میں مسعود زندگی کا گراف لکھا ہے

Read More

مسعود منور ۔۔۔ زندگی ، خاک و خُون کی وادی

زندگی ، خاک و خُون کی وادی میں ہوں اور اشک ہائے بربادی   کرسیوں کو لگی ہوئی دیمک چاٹ جاتی ہے رزقِ آبادی   حکمراں لوگ ، اس زمانے کے آنکھ پتھر کی ، دل ہے فولادی   اِن سیاسی بٹیر بازوں سے کیسے چھینیں گے لوگ آزادی   ایک دریا نیا بہا لیتے جتنی قوت تھی اپنی افرادی   یہ زمیں جنگ کا جو میداں ہے میں نے اپنی کمر پہ کیوں لادی   شہرِ توحید کا مہاجر میں اور یہ مملکت ہے الحادی   میں تھا زندہ…

Read More