تصور اقبال ۔۔۔ ہمیں قسمت سے لڑنا پڑ گیا تھا

ہمیں قسمت سے لڑنا پڑ گیا تھا تصور ضد پہ اڑنا پڑ گیا تھا طلب جنت کی دل میں آگئی تھی سو ماں کے پاؤں پڑنا پڑ گیا تھا خزاں میں زرد پتوں کو شجر سے تواتر سے ہی جھڑنا پڑ گیا تھا چُھڑا کر ہاتھ اپنا چل دیئے وہ سرِ راہے بچھڑنا پڑ گیا تھا اُدھر صحرا میں خشکی بڑھ گئی تھی سمندر کو سُکڑنا پڑ گیا تھا کسی کو تاابد خوش دیکھنا تھا ہمیں آخر اُجڑنا پڑ گیا تھا چلی تھی تیز آندھی اس طرح سے درختوں کو…

Read More

تصور اقبال ۔۔۔ غبارِ زندگانی ہے ہوا سے اُڑ بھی سکتا ہے

غبارِ زندگانی ہے ہوا سے اُڑ بھی سکتا ہے پریشانی کے عالم میں خُدا پر ایک تکیہ ہے بہتر تن دیے تھے کربلا میں دین کی خاطر خیالِ خام ہے تیرا کہ پانی آج سستا ہے چھپا رکھا ہے ہر اک راز سینے میں جہاں والو ہمارا دل حقیقت میں سمندر سے بھی گہرا ہے خدا توفیق دے گر تو بھلائی کر خدائی سے خدا کے ہاں صلہ اس کا توقع سے زیادہ ہے اسے پڑھ کر اٹھائو لطف آخر تم بھی شاعر ہو مری تازہ غزل سچ مُچ تصور…

Read More