سعید شارق … بس رات ہے اور کیا ہے مجھ میں

بس رات ہے اور کیا ہے مجھ میں؟
ہاں! بُجھتا دیا پڑا ہے مجھ میں

جو کاٹ دیا تھا عرصہ پہلے
اب بھی وہ شجر ہرا ہے مجھ میں

کچھ اپنے لیے بھی تعزیت کر!
تُو بھی تو نہیں بچا ہے مجھ میں

ہر سمت ہیں خار دار تاریں
اور ایک ہی راستہ ہے مجھ میں

مَیں گونج رہا ہوں سر سے پا تک
اک بھٹکی ہُوئی صدا ہے مجھ میں

تُو آئے کہ اور کوئی آئے
دروازہ کھُل چکا ہے مجھ میں

پِھر پِھر کے دیکھتا ہے دل کو
اک زخم نیا نیا ہے مجھ میں

Related posts

Leave a Comment