یہی نظم باقی بچی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ شاہین عباس

یہی نظم باقی بچی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم نے ماچس بنائی
مرے ہاتھ آئی
میں تیلی جلا کر گھمانے چلا
خالی چکر میں شعلے کو
او ِر شعلگی آزمانے چلا
مرکزہ دائرے کا کہاں تھا
وہ اِک حیلہ باز آگ کا حیلہ گر
جانے کس آنکھ کا تِل تھا
جو وسط سے بستگی میں ہی مارا گیا
مرکزآرا گیا
میں بڑھاتاگیا دائرے کا محیط
آگ کے بھاگ جاگے
میں سویا رہا
نار کے گہرے نارنجی باغات میں
نور کی نیلی پرچھائیں سے منہ کا پردہ کیے
شرع کا درد بس جیسے مجھ کو ہی تھا
میں نے ڈاڑھی نکالی‘عمامہ اچھالا
عصا کا عمود اِس زمیں پر ِگرایا
سما، اپنے کاندھوں پہ ڈالا
بہت روز اِیندھن نے یاری نبھائی
نگوں ہوتے دیکھا جو َلو کو کسی د ِن
تو گھبرا کے میں نے د ِیے کا سہارا لیا
آگ‘ بتّی کو پکڑا دی او ِر خوش ہوا
روشنی میری دانست میں مستقل ہو گئی
تم نے ماچس بنائی‘مرے ہاتھ آئی
میں نظموں کے انبوہ میں
شاعر ِ آتشیں سر کا بہروپ بھر کر
بیاضوں پہ اودھم مچاتی

اچھل کو دکرتی
چمتکار چنگاریاں گن رہا تھا
کہ جو کاسہ ٔ َسر سے
نظموں کی
ہفت آبادیوں پر برسنے لگی تھیں
چھما چھم مچا مچ ‘ یہ مچ مچ
یہ بے قابو جھوٹ اَور سر پٹ سیہ سچ
جبھی میں نے جانی تمھاری رضا
پھر سے اِک بار‘ یوں ہی ‘ یونہی
تم کہاں چاہتے تھے کہ نظموں سے ثابت ہو
میرا تمھارا تعلق ۔۔۔ یہ فتنہ فتیلہ
کہ ہم کون سی حالتوں میں ملے
کس سنگھاسن کھِلے اور کتنا کِھلے
میں نے پردے کا َبر کاٹ کھایا
لبالب دیے کو زمیں رُخ ُلنڈھایا
ورق تا ورق آگ بھڑکی
سخن تا سخن نظمیں جلنے لگیں
اَور دوطرفہ اِسقاط ہونے لگا
پھرجب اِسقاط پورا ہوا تو
میں اٹھا،تم اٹھے
اَور پھر خالی ّچکر میں خود کو گھمانے لگے
آگ ماضی ہوئی، راکھ راضی ہوئی
ساری نظموں کے خاکستر و خاک پر
اب یہی نظم باقی بچی ہے
جو میں لکھ رہا ہوں
یہاں سالہاسال سے
خدا !
تم نے ماچس بنائی
جو میرے تمھارے بہت کام آئی

Related posts

Leave a Comment