ذوالفقار نقوی ۔۔۔ سوز و سازِ زندگی کوئی تری دُھن میں نہیں

سوز و سازِ زندگی کوئی تری دُھن میں نہیں
سبز رَو کوئی شجر اس حجرۂ تن میں نہیں

یہ فسوں کاری چلے گی کب تلک یوں، واعظا!
کیوں زباں پر لا رہا ہے جو ترے من میں نہیں

جس کی شاخوں پر کوئی اجڑا پرندہ آ بسے
وائے ایسا اک شجر بھی تیرے آنگن میں نہیں

ہر کسی پر تنگ ہیں کچھ اس طرح ارض و سما
لگ رہا ہے رفتگاں بھی اپنے مدفن میں نہیں

میری مٹی میں نمی باقی نہیں، اے کوزہ گر!
یا کوئی تاثیر تیرے نغمۂ کُن میں نہیں

سونی سونی ہیں خلائیں، دیکھ تا حدِ نظر
اور شاہیں بھی کوئی اپنے نشیمن میں نہیں

آپ بیتی کو جہاں بیتی بنا کر پیش کر
قافیہ پیمائی کی قیمت کوئی فن میں نہیں 

Related posts

Leave a Comment