سید ضیا حسین ۔۔۔ اُس کی خفگی بھی تعلق کی علامت نکلی

اُس کی خفگی بھی تعلق کی علامت نکلی
میں نے نفرت جسے سمجھا تھا، محبت نکلی

اُسکی مُسکان سے خوش ہوتی ہے کتنی خلقت
اُسکے مُسکانے کی عادت بھی عبادت نکلی

وہ جو تھی پہلی ملاقات میں بیٹھی گُم صم
وہ تو بس چار دنوں میں ہی قیامت نکلی

میرا تُو یار بنا بھی تو اُسی کی خاطر
جس کو سمجھا تھا قرابت، وہ رقابت نکلی

نام دیتے ہیں جسے وصل کا اکثر شاعر
وہ تو فطرت کی عطا کردہ جبلت نکلی

گر خدا ہوتا تو مل جاتی معافی مجھ کو
وہ بھی انساں تھا کہ دل سے نہ کدورت نکلی

جب یہ سوچا کہ وہ کلیوں کو مسلتا کیوں ہے
یہ تو جابر کی نزاکت سے عداوت نکلی

اُس کی ہر بات کو سنجیدہ لیا تھا میں نے
اُس کی ہر بات مگر ایک شرارت نکلی

میٹھے لہجوں سے ضیاؔ کھائے ہیں دھوکے اکثر
جس کو سمجھا تھا محبت، وہ تجارت نکلی

Related posts

Leave a Comment