عاطف جاوید عاطف ۔۔۔ کسی غمزدہ سے یوں حالِ دل میاں ایک دم نہیں پوچھتے

کسی غمزدہ سے یوں حالِ دل میاں ایک دم نہیں پوچھتے
کہ جو قہقہوں میں دبا ہوا ہو وہ ضبطِ غم نہیں پوچھتے

دمِ گفتگو نہیں پوچھتے پسِ گفتگو کے ملال کو
کبھی مل بھی لیں وہ تپاک سے تو بھی اُن سے ہم نہیں پوچھتے

مری سُرخیوں بھری آنکھ پر مرے رتجگوں پہ سوال کیوں
پڑا سامنے ہو جو رختِ نم ، مرے محترم نہیں پوچھتے

مرے رازداں مرے زخم کو تری پُرسِشوں نے ہرا کیا
کہ جو واقفِ غمِ حال ہوں وہ تو کم سے کم نہیں پوچھتے

نہیں یاد کیا ؟ تری زلف سے کبھی کھیلتی تھیں یہ انگلیاں ؟
کسی لمس کا تجھے کاکلوں کے یہ پیچ و خم نہیں پوچھتے ؟

کبھی التجا ، کبھی سرزنش ، کبھی منتوں بھری خامشی
رہے ملتجی کسی آنکھ کا چلو کچھ بھرم نہیں پوچھتے

Related posts

Leave a Comment