شبہ طراز ۔۔۔ میکڈونلڈ کے مضافات میں

کھنکتے قہقہوں کی گونج تھی
اور پانچ کا سکّہ،
لکیروں کی پکڑ سے
خود بخود ڈھیلا ہوا
اور گر پڑا —
انگلیوں کا لمس
اپنی خود ستائی کی پریشاں سوچ
میں کاغذ کے ٹکڑوں پر مچلتا ہی رہا-
پہیہ بنا— وہ پانچ کا سکّہ
اکیلے راستے پر دور تک چلتا گیا—
اک غول ننگے اور بھوکے
نیند کے مارے ہوئے بچوں کا لپکا
اک تصادم زور کا،
اور ایک ہاہاکار —
اک بڑی گاڑی کا ہارن،
اور چمکتا پانچ کا سکّہ

گٹر کی گاد میں گُم-
اور بھوکے ننگے بچے دھینگا مُشتی کے
پرانے کھیل میں مشغول-
ٹوٹا تھا جہاں سے زندگی کا سلسلہ
پھر جُڑ گیا—- !

Related posts

Leave a Comment