اعجازاحمدفکرال ۔۔۔ چیخ

چیخ
۔۔۔

سارہ کا تعلق آرتھوڈوکس فیملی سے تھا۔ آج ڈیوٹی سے فارغ ہو کر اس نے گھر جانے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کو ٹیلی فون کرکے بلا لیا تھا۔کڑاکے کی سردی تھی۔ رات کے اندھیرے میں کوری دھند چھا رہی تھی۔ وہ شادمان چوک میں بھائی کے ساتھ کھڑی کسی سواری کا انتظار کر رہی تھی۔
کچھ دنوں سے پاشا اور اس کے دوستوں کے دماغوں میں بلیو فلمیں دیکھنے کی وجہ سے نسوانی قرب کا بھوسہ بھر چکا تھا۔ پاشا گناہ کا پرانا کھلاڑی تھا۔ اس نے اپنے جوئے کی شرط ہارنے کی بناپر اپنے دوستوں کو عیش کروانے کا وعدہ کر رکھا تھا۔ سب گاڑی میں سوار دھند سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ان کا اِدھر سے گزر ہوا تو سارہ کو دیکھ کر طبیعت للچا گئی۔ جنسی خون نے کنپٹیوں، دل و دماغ اورآنکھوں میں گناہ کا اندھیرا تان دیا اور نفسانی خواہش کو ریزہ ریزہ کرنے کے لیے یک دم بیتابی ان پر غالب آگئی۔
پاشا ان سب کو اگلے چوک پر ڈراپ کرکے شادمان چوک واپس آ یا اور باپردہ سارہ کے پاس کار کھڑی کرکے عنکبوت کی طرح ریشم میں لپٹی ہوئی چکنی چپڑی باتیں شروع کر دیں۔ ’’محترمہ گاڑی میں بیٹھ جائیے، میں آپ کو گھر میں ڈراپ کر دوں گا۔‘‘
سارہ خاموش رہی۔
’’محترمہ آج کل وقت ٹھیک نہیں ہے، رات بھی کافی بیت چکی ہے، گھبرائیے نہیں،بیٹھ جائیے۔‘‘
سارہ پھر بھی خاموش کھڑی رہی۔
’’میں شریف آدمی ہوں، گاڑی میں بیٹھ جائیے،گھبرائیے نہیں۔‘‘ پاشا نے ذرا الفاظ پر زور دے کر محبت سے کہا۔
’’آپ زحمت نہ کریں، ہم چلے جائیں گے، آپ کا شکریہ۔‘‘ سارہ نے جواب دیا۔
’’کل رات اسی وقت یہاں سے ایک عورت اغوا ہو گئی تھی۔ مجھے آپ کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ میں بہ حفاظت آپ کو آپ کے گھر پہنچا دوں گا۔‘‘ پاشا نے انتہائی ملائمت سے کہا۔
سارہ پاشا کی یہ بات سن کر ذرا ٹھٹھک گئی مگر خاموش رہی۔ پاس کھڑے ننھا ذہن رکھنے والے چھوٹے بھائی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا،’’باجی بیٹھ جاتے ہیں، ٹھنڈ بڑھ رہی ہے۔‘‘
سارہ ابھی گو مگو کی کیفیت میں تھی کہ پاشا نے کار کا پچھلا دروازہ کھول دیا اور ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا۔
سارہ نہ چاہتے ہوئے بھی کار میں بیٹھ گئی۔ ابھی اس کا چھوٹا بھائی بیٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ پاشا نے کار چلا دی اور تیزی سے ڈرائیو کرتے ہوئے اگلے چو ک میں لے آیا، جہاں عورت کی ہوس کے پجاری اس کے دوست انتظار میں کھڑے تھے۔ ایک تو رات کا سناٹا، دوسرے لاقانونیت میں جکڑی ہوئی اکیلی عورت، ان شیطان کے چیلوں کے آگے کمزور پڑ گئی۔ وہ اپنا دفاع نہ کر سکی۔ سب کار میں بیٹھ کر اس کو اپنی کمین گاہ لے گئے اور جس ننگے پن نے ان کا دماغ خراب کیا ہوا تھا۔ سب نے اس کی تکمیل کے لیے اس سے اجتماعی زیادتی کردی۔
چھوٹے بھائی نے قریبی تھانے اور گھر میں اطلاع کی۔
پاشا اور اس کے دوستوں نے ایک پاک دامن عورت کی عفت داغ دار کرکے ایک ویران سڑک پر پھینک دیا۔
سارہ گھر پہنچی تو اس کے ماں باپ بہن بھائیوں نے اس کوخوب برا بھلا کہااور اچھی خاصی سرزنش کی۔ سارہ کی رو رو کر سانسیں اُکھڑ گئیں۔ ایک تو اس کے ساتھ زیادتی ہوئی دوسرے اس کے ساتھ کسی نے ہم دردی بھی نہ کی۔
جب پولیس مذکورہ واقعے کی کارروائی کرنے گھر پہنچی تو انھوں نے بدنامی سے بچنے کے لیے مجرموں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس جرم کی فائل بند کرواکے ہمیشہ کے لیے خاموشی اختیار کر لی۔
سارہ جو شرم و حیا کا پیکر اور چھوئی موئی کے پودے کی طرح سمٹ جایا کرتی تھی، غیر معمولی طور پر خاموش رہنے لگی۔ اب اس نے تتلیوں کی طرح چہکناچھوڑ دیا اور بے مقصد خیالوں میں گم رہنے لگی۔ اس واقعے اور گھر والوں کی طرف سے سرزنش سے اس کے کردار میں دراڑیں پڑ گئیں۔ غموں کی آسیب زدہ بیلیں اور دکھوں کے تناور درخت اس کے اندر اُگنے لگے۔ ایک دن گھر میں اس کے حاملہ ہونے کی چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔لیڈی ڈاکٹر نے بتایا کہ بات اس کے ہاتھ سے آگے نکل چکی ہے۔ سب نے فیصلہ کیا کہ حمل کو ضائع کرنا قتل کے برابر ہے،سارہ کو چھپا کر رکھا جائے اور سارہ کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ کیوں کہ دنیا کی ذمہ داری ہے اسے دنیا کے حوالے کرکے چھٹکارہ حاصل کر لیا جائے۔ آخر کار سارہ نے ایک بے حد حسین بچی کوجنم دیا۔ گھر والےبچی کو فوراً ایک خانہ بدوش عورت کے حوالے کر آئے۔
چند برسوں بعد پاشا کا ضمیر بیدار ہوا اور اس کے دل میں زندگی کو گناہوں سے پاک کرنے کی رمک پیدا ہوئی کہ زندگی جنت اور دوزخ کا انتخاب کرنے کا راستہ ہے اور انسان کا سب سے بڑا گناہ اپنی مرضی سے زندگی بسر کرنا ہے۔ انسانی شکلوں سے مشابہت رکھنے کی بنا پر کوئی انسان نہیں بن جاتا جب تک انسانوں جیسا کردار نہ اپنایا جائے اور آج تک ہونے والی برائیاں بری صحبت کا نتیجہ ہیں۔ بری صحبت میں اچھے برے کی تمیز نہیں رہتی اور یہ انسان کو گناہوں کی طرف لے جاتی ہے۔ بری صحبت میں ہمیشہ دامن داغ دار رہتا ہے، اس کو اختیار کرنا برائی کی غلامی کرنا ہے۔ بری صحبت میں ہمیشہ اندھیرا رہتا ہے اس کی طرف روشنی نہیں آتی بلکہ انسان ہمیشہ بھٹکا رہتا ہے اور عورت کو ماں بہن بیٹی بنائے بغیر انسان کسی معاشرے میں عزت سے نہیں رہ سکتا۔ بگڑے ہوئے لوگ وہی ہوتے ہیں جن کی عورت ٹھیک طرح سے تربیت نہ کرسکے۔ لہٰذا پاشا نے برائی کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا اور شادمان چوک کی مسجد میں نمار ادا کرکے سارا دن باہر بیٹھا رہتا۔
سارہ کو سب نے روند دیا۔ مایوسیوں اور پریشانیوں سے اس کے بالوں میں سفیدی اترنے لگی۔ بیچاری سارہ کو ہر جگہ قہر آلود اور میخ دار نظروں کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس کی زندگی طعنہ و تشنیع سے بھر گئی۔ اس کی موجودگی سے لوگ کتراتے اور عورتیں اشاروں کنایوں میں باتیں کرتیں۔
جہاں سے سارہ کی ناموس کی بربادی کا آغاز ہوا تھا۔ ایک دن وہیں اس نے پاشا کو دیکھ لیا۔ سارہ نے جوتے اتار کر برسانے شروع کر دیے۔ جوتے برس رہے تھے اور پاشا بغیر مزاحمت کے خاموشی سے مار کھا رہا تھا۔ لوگ دیکھ رہے تھے۔ لوگوں نے پاشا کو پکڑ کر قریبی تھانے میں پیش کر دیا۔
اس نے عورت کی بے حرمتی کرکے عورت کی ذات پر ہونے والے سب سے بڑے جرم کا اعتراف کر لیااور تھانیدار سے یہ بھی کہا،’’جس معاشرے میں عورت کا احترام نہیں ہو گا آسمان اس معاشرے پر کبھی رحمتیں نازل نہیں کرتا۔ کوئی معاشرہ اس وقت تک مہذب ہونے کا دعوٰی نہیں کرسکتا جب تک عورت کو اس میں تحفظ حاصل نہ ہو اور وہ سارہ سے شادی کرکے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہے۔
سارہ کی زندگی بدل گئی، اس میں بہار کا جھونکا آ گیا۔ سارہ کے گھر والوں نے سارہ کو پاشا کے ساتھ رشتہ ازواج میں منسلک کر دیا۔ سارہ نے پاشا کو ماضی کے بارے میں آگاہ کیا کہ اس کے ہاں اس کی غلطی کی وجہ سے ایک بچی نے جنم لیا تھا اور اس نے وہ بچی ایک خانہ بدوش عورت کو دے دی تھی۔
پاشا زیادہ گہری سوچوں میں کھو گیا۔ اس نے لڑکی کو تلاش کرنا شروع کر دیا اور کئی ہاتھوں سے گزر کر مطلوبہ پتہ حاصل کیا۔ جب پاشا دیے ہوئے پتے پر پہنچا تو ایک بڑے گھر کے باہر ایک پھول والا بیٹھا تھا۔ پاشا نے پھول والے کو پتہ دکھایا۔ پھول والے نے پتہ پکڑ کر کہا،’’باؤجی میں آپ کو جانتا ہوں۔ آپ تو کئی سال سے شادمان چوک کی مسجد کے باہر بیٹھے رہتے ہیں۔ آپ تو تماشبین نہیں لگتے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ یہاں ایک نئی سٹرپ ڈانسر طوائفہ آئی ہے۔ لوگ اس کی اداؤں پر مر مٹتے ہیں اور لاکھوں روپیہ اس پر نچھاور کرکے جاتے ہیں۔ مگر غریب کو کچھ نہیں دیتے۔ مگر۔۔۔
یہاں میرے روزانہ سارے پھول بک جاتے ہیں۔ نئی طوائفہ بائیس تئیس سال میں حسن کا طلسم لگتی ہے۔ اشاروں کنایوں میں تماش بینوں سے بات کرنے کی ماہر ہے۔ زبان سے رقص کرتے لفظوں سے جادو کر دیتی ہے۔ چہرے پر سادگی اور بھول پن ہے۔ مناسب قد کاٹھ اور بڑے شولڈر رکھنے والی لڑکی ہے۔ لمبی سبز آنکھیں اور چہرے کا رنگ گلابی ہے۔ لمبا ستواں ناک اور گلابی ہونٹ ہیں اور کیا خوب صورت سٹپ کٹنگ بال ہیں اس کے، جب لہراتے ہیں تو اس کے چہرے پر دل کش اتار چڑھاؤ پیدا کرتے ہیں۔ میں کیا بتاؤں آپ کو کس قدر خوب صورت ہے وہ۔ پھول والے نے حسرت سے ایک آہ بھری۔۔۔۔۔اور ڈانس کے بعد خوش قسمت پسینہ شبنم کے قطروں کی طرح اس کے بدن پر چمکتا رہتا ہے۔ ہر رنگ کا لباس اس کے جسم پر ایسے جچتا ہے جیسے ڈیزائنر نے اسی کے لیے تیار کیا ہے۔ حقیقت میں ایک خوشبودار اور سحر کرنے والی دوشیزہ ہے۔ دل پھینک اس کے آگے پیچھے منڈلاتے رہتے ہیں اور اس کو دیکھتے ہی اُس پر فدا ہو جاتے ہیں۔ ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں اس پر لاکھوں روپیہ ہر وقت خرچ کرنے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ آج بھی اس کا ماڈلنگ فوٹو سیشن ہو رہا ہے۔ یقین جانیے اس نے پبلک کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔ اس کی اداؤں کی پورے شہر میں شہرت ہے۔ اس کے جسم،جوانی،گفتگو،ذہانت اور طریقے سلیقے میں روز بہ روز نکھار آتا جارہا ہے۔ انھی وجوہات کی بناپر اس کو نکھار کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
یہ کہہ کر پھول والے نے ایک نظر ہاتھ میں پکڑے ہوئے پتے پر ڈالی اور بے ساختہ کہا،’’آپ کو بھی نکھار سے ملنا ہے۔‘‘
پاشا نے ذرا آنکھیں نکال کر اس کی طرف دیکھا تو پھول والا ذرا روہانسی ہنسی ہنسااور پتہ پاشا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا،’’اندر چلے جائیے۔‘‘
نکھار کے دل میں نہ ہی کبھی خیال پیدا ہوا نہ ہی کبھی سوچنے کا موقعہ ملاکہ اس کا کوئی رشتہ دار کیوں نہیں۔ نکھار کا عورت ہونے کے علاوہ دنیا سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔ خریدنے والے اس کو دولت کی مشین سمجھتے تھے۔ بکنے کے علاوہ اور جاتی بھی کہاں۔ گندگی کی اس دلدل کے علاوہ اس کا کوئی گھر نہ تھا۔
پاشا اندر پہنچا تو ایک بڑے صوفے پر منہ میں پان دبائے ایک بڑی نائکہ بیٹھی تھی۔ پاشا نے نائکہ کو بتایا کہ وہ اس طرح ڈھونڈتا ہوا یہاں پہنچا ہے اور نکھار کا باپ ہے۔‘‘
’’اس کی زندگی میں کئی باپ اور بھائی آئے اور منہ کالے کرکے چلے گئے۔ تم کہاں سے نئے باپ آ گئے ہو۔‘‘ نائکہ نے کہا۔
’’میں ہی اس کا حقیقی باپ ہوں۔‘‘ پاشا نے جواب دیا۔
’’میں اس کی ماں ہوں مجھے نہیں پتا اس کا باپ کون ہے، یہاں خواہ مخواہ اپنا ٹائم ضائع نہ کرو۔ اس کا وقت ہمارا ہے۔ہم اس کی پبلسٹی پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ وہ کسی باپ سے نہیں مل سکتی۔‘‘نائکہ نے جواب دیا۔
’’میں اس سے ضرور ملنا چاہوں گا۔‘‘پاشا نے اُکھڑا ہوا جواب دیا۔
’’وہ اس وقت بھی مصروف ہے اور ہر وقت مصروف رہتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘ نائکہ نے جواب دیا۔
’’صرف ایک بار ملوادیں۔‘‘پاشا نے التجائی انداز میں کہا۔
’’خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کرو گے۔‘‘ نائکہ نے ذرا تحکمانہ انداز میں کہااور تھوڑی دیر رُک کر بولی،’’آؤ میں تمھیں اس سے ملواتی ہوں۔‘‘
نائکہ پاشا کو لے کر اندر ہال کمرے میں جارہی تھی۔برآمدوں میں نکھار کی سٹرپ لباس میں تصویریں لگی تھیں۔ ہال کمرہ تماش بینوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہاں اس کا ماڈلنگ فوٹو سیشن ہو رہا تھا۔ نکھار شراب اور اتراہٹ کے نشے میں دُھت لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی تھی۔ کبھی وہ ایک کے بازوؤں میں چلی جاتی کبھی وہ دوسرے کی گود میں بیٹھ جاتی۔ ٹانگوں پر لپٹے ہوئے کپڑے والی سلور رنگ کی چڈی اور بلاؤز چھاتیوں کے پسینے سے گیلا تھا۔ انتہائی مختصر لباس میں جسم کا خاصا حصہ ننگا تھا۔ تماش بین آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہے تھے۔
’’نکھار۔‘‘ نائکہ نے آواز دی جوکہ اس وقت شمع محفل بنی ہوئی تھی۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی۔
نکھار نے معنی خیز نظروں سے پاشا کی طرف دیکھا۔
’’یہ شخص اپنے آپ کو تمھارا باپ کہتا ہے۔‘‘ نائکہ نے نکھار سے کہا۔
نکھار نے مسکرا کر پاشا کی طرف دیکھا۔ اس کی دل آویز مسکراہٹ روایتی پابندیوں کے خلاف بغاوت تھی۔ کہنے لگی، ’’تم کوئی نئے باپ آئے ہو، جو بھی مجھے خریدتا ہے، میرا باپ بن جاتا ہے،مجھے توآج تک اپنے اصل مالک ہی کا پتا نہیں، باپ کا کیسے پتا چلے گا، میں تو بکاؤ مال ہوں،تم بھی خرید کر باپ بن جاؤ۔میں تو کرائے کی جنسی تسکین کی مشین ہوں۔ میرا تقدس تو اجتماعی طور پر پائمال کیا جاتا ہے۔میرا تو چہرہ ہی باعث ِ تسکین ہے۔ میں تو صرف عیاشی حاصل کرنے کی مشین ہوں۔ مجھے بتاؤ، کیا مرد کے لیے صرف عورت کے پاس ہی محبت ہے۔ ٹوٹے ہوئے دلوں کو راحت فراہم کرنا میرا معمول ہے۔ لوگ مجھ میں سکون ڈھونڈتے ہیں اور میں لوگوں سے سکون کی بھیک مانگتی ہوں۔ میں کسی کی بیوی نہ بن سکی۔ بیوی گھر آباد کرتی ہے، طوائف گھروں کو برباد کرتی ہے۔ ان لوگوں کو دیکھو، یہ سب بیویوں کے ستائے ہوئے خاوند میرے یار ہیں۔‘‘
پاشا ہکابکا تھا، شرم سے اُس کی گردن جھکتی جا رہی تھی اور وہ بولتی رہی:
’’میں اپنے حقوق کے تحفظ کے نعرے ان لوگوں کی زبان سے بھی سنتی رہتی ہوں۔ میں تو انھی لوگوں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئی ہوں۔ تم میرے باپ کہاں سے آگئے۔ میں تو کسی کی بیٹی ہی نہیں۔ میں یہ لفظ سُن سُن کر تنگ آچکی ہوں۔ جاؤ،جاؤ دفعہ ہو جاؤیہاں سے، جاؤ۔نہیں تو میں اپنا چہرہ نوچ لوں گی۔‘‘ نکھار نے دکھ بھرے لہجے میں روتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اس نے پاشا کو ایک چانٹا رسید کر دیا۔
پاشا کھڑا رہنا چاہتا تھا۔ مگر نائکہ نکھار کے تیور دیکھ کر پاشا کو بازو سے پکڑ کر باہر لے آئی۔ پاشا کے ہلکے پھلکے پاؤں اب ذلت کے بھاری بوجھ سے اٹھ نہیں رہے تھے۔ وہ باہر آکر پھول والے کے پاس گر گیا۔
چند دن بعد نکھار نے خود کو کمرے میں بند کرکے گولی مار کر خودکشی کر لی۔ اس کے ہاتھ میں ایک تحریری نوٹ تھا۔ کاش میرا کوئی حقیقی باپ ہوتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment