بورخیس/محمد عاصم بٹ ۔۔۔ شاخ دار راستوں والا باغ

شاخ دار راستوں والا باغ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لڈل ہارٹ کی ’’تاریخ جنگ عظیم‘‘ کے صفحہ ۲۴۲ پر آپ کو لکھا ملے گا کہ ۲۴ جولائی ۱۹۱۶ء کو سیرے مونٹا بن سرحدپرتیرہ برطانوی ڈویژنوں (جن کے ہمراہ ۱۴ سو توپیں بھی تھیں) کے حملے کا منصوبہ بنایاگیا جسے بعدازاں ۲۹ جولائی کی صبح تک موخر کر دیا گیا۔ کیپٹن لڈل ہارٹ کے مطابق اس التواء کا سبب غیر متوقع تند بارشیں تھیں۔ایک تاخیر جیسا کہ ثابت ہوا، جس سے کہیں کوئی فرق نہیں پڑا۔
درج ذیل عبارت جسے تسنگ تائو میں ہوشیول میں انگریزی کے سابقہ پروفیسر ڈاکٹر یوسون نے لکھوایا،پھر سے پڑھا اوراس پردستخط کیے، اس تمام معاملے پرغیر متوقع انداز میں روشنی ڈالتی ہے۔ دستاویز کے دو ابتدائی صفحات غائب ہیں۔
’’۔۔۔اور میں نے ریسیور نیچے رکھ دیا۔اس کے فوراً بعدمیں نے وہ آواز پہچان لی جس نے جرمن زبان میں جواب دیا تھا۔ یہ کیپٹن رچرڈ میڈن کی آواز تھی۔ وکٹر روبنرگ کے فلیٹ میں میڈن کی موجودگی کا مطلب تھا کہ ہماری کاوشوںکا اختتام قریب تھا اور (اگرچہ مجھے یہ بات ثانوی محسوس ہوئی یا اسے یونہی محسوس ہونا چاہیے تھا کہ) یہ ہماری زندگیوں کا بھی خاتمہ تھا۔اس کا مطلب تھا کہ رونبرگ گرفتار ہو چکا یا مارا جاچکا تھا۔ (ایک عجیب اور انتہائی ناخوش گوار خیال۔ پروشیا کا جاسوس ہانز ریبنر المعروف وکٹر رونیبرگ نے ایک آٹومیٹک پستول اسے گرفتار کرنے آئے ہوئے افسر کیپٹن رچرڈ میڈن پر تان لیا۔میڈن نے اپنے دفاع میں ریبنر پر گولی چلائی جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ مدیر کا نوٹ)
آج غروب آفتاب سے پہلے میں خودبھی اسی انجام سے دوچار ہو جائوں گا۔ میڈن ایک سخت دل شخص ہے یا پھریہ اس کی مجبوری ہے کہ وہ ایسا ہو۔ مملکت انگلستان کا ملازم، ایک آئرش، وہ ایسا شخص ہے جس پر کاہلی اور شاید غداری کے الزامات تھے، وہ بھلا ایسے معجزانہ موقع کو ہاتھ سے جانے دینے اور اس پر شکر گزار نہ ہونے کی غلطی کس طرح کرسکتا تھا۔جرمن رائخ کے دو جاسوسوں کا سراغ ملنا، ان کا گرفتار ہونا یا غالباً موت کے گھاٹ اتر جانا۔ میں اوپر اپنے کمرے میں گیا۔ احمقانہ طور پر دروازے کو مقفل کیا اور خود کو پشت کے بل تنگ آہنی کھاٹ پر گرا لیا۔ کھڑکی سے باہر مجھے مانوس چھتیں اور بادلوں سے ڈھکا ہوا چھ بجے کا سورج دکھائی دیا۔ مجھے یہ بات غیر معمولی معلوم ہوئی کہ آج کا دن کسی طرح کی پیشین گوئیوں یا اشاروں کے بغیرمیری ناگزیر موت کا دن ہوگا۔ اس کے باوجود کہ میرے والد فوت ہوچکے، اور اس کے باوجود کہ میں بچپن میں ہائی فنگ کے متشاکل باغ میں رہا، تو کیا میں اب مرجائوں گا؟
تب میں نے سوچا کہ ہر واقعہ ہر انسان کے ساتھ رونما ہوتا ہے اور کسی ابہام کے بغیر ہوتا ہے، خاص طورپر لمحۂ موجود میں۔ صدیوں کے بعد صدیاں گزرتی ہیں لیکن پھر بھی واقعات صرف زمانۂ حال میں ہوتے ہیں۔ ان گنت افراد ہوا میں ہیں، زمین پر اور سمندر میں ہیں، پھر بھی ہر واقعہ جو حقیقتاً ہورہا ہے،وہ میری ذات سے وابستہ ہے۔ میڈن کے گھوڑے سے مشابہہ چہرے کی ناقابل برداشت یاد نے میری آوارہ خیالیوں کو کافورکیا۔ نفرت اور دہشت کی کیفیت کے بین بین (اپنے خوف کا ذکر میرے لیے باعث ندامت نہیں ہے۔ اب جب کہ میں رچرڈ میڈن کا ٹھٹھا اڑاچکا ہوں، اب جب کہ میری گردن پھانسی کے پھندے کی آرزو مندہے۔) مجھ پر انکشاف ہوا کہ اس انتشار انگیز اوربلاشبہ انتہائی مسرور جنگجو کو یہ گمان بھی نہیں ہوگا کہ میرے پاس وہ راز موجود ہے، دریاے اینکر پر نئے برطانوی توپ خانے کے صحیح مقام کا راز۔
ایک پرندہ تیزی سے لہراتا ہوا بھورے آسمان پر سے گزرا اوربے دھیانی میں میں نے اسے ہوائی جہاز سے تعبیر کیااور پھر ان بہت سے جہازوں کو (فرانسیسی آسمان میں اڑتے ہوئے) فوجی چھائونی کو عمودی بمباری سے نیست و نابود کرتے ہوئے تصور کیا۔ کاش میرے منہ سے، اس سے پیشتر کہ گولی اسے پاش پاش کر دے، یہ خفیہ نام ادا ہوسکے کہ اسے جرمنی میں سن لیا جائے تو۔۔۔۔۔۔۔لیکن میری آواز بہت نحیف ہے۔
کیسے میں اسے چیف کے کانوں تک پہنچا سکتا تھا؟ اس لاغر اورقابل نفرین انسان کے کانوں تک جو رونبرگ اور میرے بارے میں اس کے سوا کچھ نہیں جانتا کہ ہم سٹیفورڈ شائر میں ہیں اور جو برلن میں اپنے ویران دفتر میں بیکار ہی بیٹھا ہماری رپورٹ کے انتظار میں سوکھ رہا تھا، لامختتم طور پر اخبارات کو کھنگالتے ہوئے۔
میں نے باآواز بلند کہا ’’مجھے یہاں سے فرار ہوجانا چاہیے۔‘‘ پھر آواز پیدا کیے بغیر اٹھ بیٹھا،بے ضرورت مگر مکمل خاموشی کے ساتھ جیسے میڈن پہلے ہی سے میری گھات میں دروازے پر پہنچ چکا ہو۔
پھر شاید یہ ثابت کرنے کی کوشش میں کہ اب میرے پاس کچھ نہیں بچا، میں نے اپنی جیبوں میں ٹٹولا۔ وہاںوہی کچھ تھا جس کی مجھے توقع تھی۔ ایک امریکی گھڑی، نکل کی ایک چین اور ایک مربع نما سکہ، رونبرگ کے اپارٹمنٹ کی شامل تفتیش بے کار چابیوں کا چھلا، ایک نوٹ بک، ایک خط جس کو میں نے فوری طور پر ضائع کر نے کافیصلہ کیا(لیکن کبھی ایسا کرنہیں سکا۔)، ایک جعلی پاسپورٹ، ایک کرائون، دو شیلنگ اور چند پنس، سرخ اور نیلی پنسل،ایک دستی رومال، ایک پستول جس میں ایک گولی بھری تھی۔ احمقانہ طور پر میں نے اسے ہاتھ میں تھاما اور اس کا وزن محسوس کیا خود میں جرات پیدا کرنے کے لیے۔میں نے سوچا پستول کی گولی تو دور سے سنائی دے سکتی تھی۔ دس منٹ کے دورانیہ میں میرا منصوبہ مکمل ہو چکا تھا۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری میں اس واحد شخص کا نام موجود تھا جسے یہ پیغام وہاں پہنچانا تھا۔ وہ فینٹن کے مضافات میں رہتا تھا، ٹرین کے ذریعے آدھے گھنٹے سے بھی کم دورانیہ کے سفر پر واقع۔
میں ایک بزدل آدمی ہوں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ اب میں ایسے منصوبے کو اختتام تک لے جاچکا ہوں جس کی پر خطر نوعیت سے اور بے باکی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ اس پر عمل درآمد کتنا دشوارہے۔ میں نے یہ سب کچھ جرمنی کے لیے نہیں کیا۔ نہیں ۔ ایک بربریت پسند ملک کے لیے میرے دل میں کیاعزت ہوسکتی ہے جس نے مجھے ایک جاسوس ہو نے کی خواری میں مبتلا کیا؟ البتہ میں انگلستان کے ایک باشندے کو جانتا ہوں، ایک نفیس انسان،جو میرے خیال میں کسی طور گوئٹے سے کم عظیم نہیں ہے۔میں نے بمشکل ایک گھنٹہ اُس سے گفتگو  کی ہوگی لیکن اس دوران وہ میرے لیے گوئٹے جیسا ہی عظیم رہا۔ ۔۔
نہیں۔ میں نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کیوں کہ مجھے محسوس ہوا کہ چیف کسی باعث میری قوم کے لوگوں سے خائف تھا، لاتعداد آبائواجدادجن کا خون میری رگوں میں دوڑتا تھا۔میں اُسے ثابت کرانا چاہتا تھا کہ زرد قوم کا ایک شخص اس اہل تھا کہ اپنی فوجوں کے دفاع کرسکے۔پھر مجھے کیپٹن میڈن سے بھی فرار ہونا تھا۔ اس کے ہاتھ اور آواز کسی بھی لمحہ میرے دروازے تک پہنچ سکتے تھے۔ میں نے خاموشی سے لباس پہنا۔ آئینے میں دیکھتے ہوئے خود کو الوداع کہا۔سیڑھیوں سے نیچے اترا، خاموش گلی کا بغور جائزہ لیا اور روانہ ہوگیا۔
سٹیشن میرے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ لیکن میں نے ٹیکسی لینے میں ہی دانش مندی سمجھی۔ خود کو یہ کہہ کر مطمئن کیا کہ اس طرح میرے شناخت کیے جانے کا امکان کم ہو جائے گا۔ حقیقت یہ تھی کہ میں نے محسوس کیا کہ اس ویران گلی میں میں پہچانا جا سکتا تھا اور خطرے میں تھا۔ بہت زیادہ خطرے میں۔
مجھے یاد ہے میں نے ڈرائیور کوسٹیشن کے داخلی پھاٹک سے کچھ فاصلے پر رکنے کو کہا۔ میں باارادہ اور تکلیف دہ آہستگی کے ساتھ ٹیکسی سے باہر نکلا۔ مجھے ایشگرو گائوں تک جانا تھا۔ لیکن میں نے اس سے کہیں زیادہ فاصلے کا ٹکٹ لیا۔ ٹرین اگلے چند منٹوں میں ہی ۸:۵۰ پر چھوٹے گی۔ میں شتابی سے آگے بڑھا۔اگلی ٹرین ۹.۳۰سے پہلے نہیں چلے گی۔میں ریل کے ڈبوں کو دیکھتا آگے بڑھا۔ مجھے یاد ہے چند کسان اور ایک عورت ماتمی لباس میں ملبوس، ایک نوجوان جوبڑے انہماک سے ،Annals of Tacitus، پڑھ رہا تھا، ایک زخمی اور مسرور دکھائی دیتا فوجی۔بالآخر ڈبوں کو آگے جھٹکا لگا۔ ایک شخص جسے میں پہچانتا تھا بے سود ہی پلیٹ فارم کے اختتام تک بھاگتا گیا۔ وہ کیپٹن رچرڈ میڈن تھا۔ اندر سے شکستہ، کانپتا ہوا میں ڈراؤنی کھڑکی سے دُور نشست کے پرلے کنارے پر سمٹ گیا۔
اس شکستگی کی کیفیت سے میں ایک طرح کے اسفل سرور کی کیفیت میں مبتلا ہوا۔ میں نے خود سے کہا کہ جنگ تو شروع ہو چکی تھی اور میں اپنے دشمن کے وار کو خالی دے کر پہلا مقابلہ جیت چکا تھا، چاہے قسمت کی معمولی مہربانی سے آئندہ چالیس منٹ کے لیے ہی سہی۔میں نے خود کو تسلی دی کہ اس معمولی ترین فتح نے مکمل فتح کو واضح کردیا تھا۔ اپنے آپ ہی سے میں نے کہا کہ یہ جیت ایسی معمولی بھی نہیں تھی کیوں کہ اس قیمتی مہلت کے بغیر جو ٹرینوں نے مجھے عنایت کی تھی، میں جیل میں ہوتا یا مرچکا ہوتا۔
میں نے خود سے کہا کہ میری بزدلانہ مسرت سے بڑھ کر اس بات کا اور کیا ثبوت ہوسکتا تھا کہ میں ہی وہ اہل شخص تھا جو اس مہم کو کامیابی سے سر کرپائے۔ اس نقاہت سے میں نے تقویت حاصل کی جومجھ میں باقی رہنی تھی۔ میں تصور کرسکتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں انسان خود کو زیادہ سے زیادہ دہشت پسندانہ سرگرمیوں میں مصروف کرلے گا۔ جلد ہی یہاں جنگجوئوں اور رہزنوں کے سوا کوئی باقی نہیں بچے گا۔ میں انھیں یہ مشورہ دیتا ہو ں:جس کسی کو کچھ ہولناک فعل کرنا ہو، اسے خود کو یہ کہنا چاہیے کہ یہ کام تو پہلے ہی ہوچکا ہے۔اسے خود پرایسا مستقبل عائد کرلینا چاہیے جو ماضی ہی کی طرح ناقابل حصول ہو۔
تو ایسا میں نے کیا۔جب کہ میری آنکھیں، ایسے شخص کی آنکھیں جو پہلے ہی مرچکا ہو، اس دن کے گزران کا،جو غالباً میرا آخری دن تھا،پھیلتی ہوئی رات کا مشاہدہ کر رہی تھیں۔ ٹرین نرمی سے، آہستگی سے دیودار کے درختوں کے درمیان میں سے گزر رہی تھی۔اچانک یہ کھیتوں کے تقریباً عین وسط میں آ کر ٹھہر گئی۔ کسی نے اسٹیشن کا نام نہیں پکارا۔ میں نے پلیٹ فارم پر موجود چند لڑکوں سے پوچھا ’’ایشگرو‘‘۔ انھوں نے جواب دیا ’’ایشگرو‘‘۔ میں نیچے اتر آیا۔
پلیٹ فارم پر ایک قمقمہ روشنی پھیلا رہا تھالیکن لڑکوں کے چہرے سائے میں تھے۔ کسی نے مجھ سے پوچھا ’’کیا آپ ڈاکٹر اسٹیفن کے گھر جا رہے ہیں‘‘؟
میرے جواب کا انتظار کیے بغیر ایک دوسرے شخص نے کہا ’’ان کا گھر بہت دور ہے۔لیکن اگر آپ اس راستے پر بائیں ہاتھ چلیں اور ہر موڑ پر بائیں جانب مڑتے رہیں ، تو بھٹکے بغیر وہاں پہنچ جائیں گے۔‘‘ میں نے ایک سکہّ ان کی طرف اُچھالا (میری آخری پونجی)۔ پتھر کی چند سیڑھیاں نیچے اُترکر خاموش سڑک پر چلنے لگا۔یہ بہت آہستگی سے ڈھلوان سے نیچے اُتررہی تھی اور گرد سے پُر تھی۔ اُوپر شاخیں اُلجھی ہوئی تھیں اور نیچے آیا ہوا پورا چاند میری ہمراہی میں چلتا محسوس ہو رہا تھا۔
ایک لمحہ کے لیے مجھے خوف محسوس ہوا کہ رچرڈ میڈن نے کسی طور میرے مایوس کن منصوبے کی سُو لگا لی تھی۔ لیکن فوراً ہی احساس ہوا کہ یہ ناممکن تھا۔ ہمیشہ بائیں جانب مڑ نے کی بچے کی ہدایت پر مجھے یاد آیا کہ کسی بھُول بھلیوں کے مرکزی نقطے کو دریافت کرنے کا یہ عمومی طریقہ کار ہے۔ مجھے بھول بھلیوں کا کچھ کچھ فہم ہے۔ایسے بے کار ہی تو میں تسوئی پن کا پڑپوتا نہیں تھا جو ینان کے گورنر تھے اور جنھوں نے اپنے عہدے سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی تاکہ ایک ناول لکھیں جس میں ’’ہنگ لیو مینگ‘‘ (Hung Lu Meng) سے کہیں زیادہ کردار موجود ہوں اور ایک بھول بھلیاں تشکیل دیں جس میں تمام انسان اپنی راہ گم کر بیٹھیں۔
تسوئی پن نے تیرہ برس ان متفرق منصوبوں کی تکمیل میں صرف کیے۔ لیکن ایک اجنبی نے ان کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ ان کا ناول بے ربط تھا۔ نہ ہی کسی کو ان کی بھول بھلیاں ہی ملیں۔انگریزی درختوں کے تلے میں نے اِن گم شدہ بھول بھلیوں کے بارے میں سوچا۔ میں نے تصور میں انھیں ایک پہاڑ کی خفیہ گپُھا میں مکمل اور غیر مُتغیر حالت میں دیکھا۔ پھرتصور کیا کہ چاول کے کھیتوں نے انھیں مٹا دیا تھایا یہ پانی کے نیچے کہیں تھیں۔ میں نے انھیں لامحدود تصور کیا،ایسے ہشت اضلاع خیموں اورراستوں سے مترکب بھول بھلیاں نہیں جو اپنے آپ ہی پر آکر ختم ہوتی ہوں بلکہ دریائوں اور صوبوں اور بادشاہوں پر مشتمل بھول بھلیاں۔
میں نے بہت سی بھول بھلیوں والی ایک بھول بھلیوں کا تصور باندھا،آڑھے ترچھے راستوں کی بھول بھلیاں، لہردار، موڑ دار، ہمیشہ پھیلتی ہوئی بھول بھلیاں، جو ماضی اور مستقبل کا احاطہ کر لیں اور کسی طور ستاروں کو بھی محیط ہوں۔ ان التباسی شبیہوں میں کھویا ہوا میں فراموش کربیٹھا کہ میرا تعاقب کیا جا رہا تھا۔مجھے ایک غیر معلوم وقفہ کے لیے اپنا آپ دنیا کا ایک مجرد مدرک محسوس ہوا۔
مبہم ، زندہ قصبہ، چاند اور دن کی باقیات نے مجھ پر اثر کیا اور کچھ ایسی ہی سڑک کی ڈھلوان تھی جس نے مجھ میں پژمردگی کے سب امکان ختم کر دیے۔ شام ہونے کو تھی اور لامحدود بھی۔ سڑک نیچے جا رہی تھی اور شاخ در شاخ تقسیم تھی جیسے اسے بے ہیئت معلوم ہونے والے مرغزاروں میں تراشا گیا ہو۔ مدھم مبہم سُروں کی رکنی موسیقی مجھ تک پہنچ رہی تھی، جو پتوں اور فاصلے اور بارش کی وجہ سے ہوا میں تحلیل ہورہی تھی۔ میں ہواکے نرم جھونکوں میں آگے بڑھتا چلا گیا۔اس خیال نے مجھے جکڑ لیا کہ ایک انسان دوسرے انسان کا،دوسرے شخص کے دیگر لمحوں کا دشمن ہوسکتا ہے لیکن پھر بھی ایک ملک کا نہیں۔ نہ ہی اس کے جگنوئوں، لفظوں، باغوں، ندیوں اور غروب آفتاب کے منظروں کا۔
ایسے ہی تفکرات میں گھرا ہوا میں ایک بلند زنگ خوردہ پھاٹک کے سامنے پہنچا۔ آہنی سلاخوں کے درمیان مجھے ایک راستہ دکھائی دیا پاپلر کے درختوں میں گھرا ہوا اور کسی نوع کی شہ نشین بھی نظر آئی۔ فوری طور پر دو باتیں سمجھ میں آئیں۔ پہلی ادنیٰ اور دوسری تقریباً ناقابل یقین۔ جو موسیقی مجھے سنائی دے رہی تھی وہ شہ نشین یا چھوٹے خوش نما بنگلے سے بلند ہو رہی تھی۔جب کہ موسیقی چینی طرز کی تھی۔شائد اس لیے میں بے دھیانی میں اس کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ مجھے یاد نہیں کہ وہاں گھنٹی کا بٹن تھا یا میں نے اپنی موجودگی ظاہر کرنے کے لیے ہاتھ سے دستک دی۔ موسیقی کی آب و تاب قائم رہی۔
اس اپنائیت بھرے گھر کے پچھواڑے سے ایک لالٹین کی روشنی مجھ تک آتی دکھائی دی۔ لالٹین کی روشنی آرپار ہوتی کرنوں اور کبھی درختوں سے چھن کر آتی روشنی کی صورت میں بکھری ہوئی تھی۔ایک کاغذی لالٹین جس کی شکل ڈھول جیسی اور رنگ چاند جیسا تھا۔ ایک دراز قد شحض نے اسے اٹھایا ہوا تھا۔ مجھے اس کا چہرہ دکھائی نہیں دیا کیوں کہ روشنی نے میری آنکھیں چندھیا دی تھیں۔ اس نے دروازہ کھولا اور میری ہی زبان میں آہستگی سے کہا ’’میں جانتا ہوں کہ پارسا ہسی پنگ میری تنہائی دور کرنے آیا ہے۔ آپ بلاشبہ باغ دیکھنے کے خواہاں ہیں۔‘‘
میں نے ہمارے قونصل خانے کے عملے میں سے ایک رکن کا نام پہچان لیا تھا۔لیکن میں نے بے پروائی سے جواب دیا ’’باغ؟‘‘
’’شاخ دار راستوں والا باغ‘‘۔
میری یادداشت میں کچھ ہلچل سی ہوئی اور میں نے ناقابل فہم یقین سے کہا ’’میرے جدامجد تسوئی پن کا باغ‘‘۔
’’آپ کے جدامجد؟ آپ کے نامی گرامی آبائواجداد؟ مہربانی فرما کر آپ اندر تشریف لائیے‘‘۔
اوس سے بوجھل راستہ میرے بچپن کے راستوں کی طرح الجھا ہوا تھا۔ ہم مشرقی اور مغربی علوم کی کتابوں سے بھرے ایک کتب خانہ میں پہنچے۔ میں پہچان گیا زرد ریشمی جلد میں بندھے گم گشتہ انسائیکلوپیڈیا کے قلمی نسخوں کو، جنھیں لومینس شاہی خاندان کے تیسرے شہنشاہ نے مرتب کیا تھا لیکن جس کے چھپنے کی کبھی نوبت نہیں آئی۔کانسی کے بنے ہوئے فونیقس کے برابر فونوگرام پر ریکارڈ گھوم رہا تھا۔ مجھے فیمیلیروز کا چینی گل دان یادہے اور ایک اور ظروف بہت صدیاں پرانا، نیلے رنگ سے بنا جسے ہمارے کاری گروں نے قدیم ایرانی ظروف سے نقل کیا تھا۔
اسٹیفن البرٹ نے مسکراتے ہوئے مجھے خوش آمدید کہا ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا اس کا قد دراز، نقوش تیکھے، آنکھیں بھوری اورداڑھی بھورے رنگ کی تھی۔ اس کے چہرے پر راہبوں جیسا تاثر تھا جس میں ملاحوں جیسی کیفیت موجود تھی۔ بعدازاں وہ بولا چینی ثقافت اور زبان کا طالب علم بننے سے بہت پہلے وہ ٹینٹسن میں ایک مبلغ تھا۔
ہم بیٹھ گئے۔ میں ایک پست قد کشادہ دیوان پر اور وہ کھڑکی اور ایک لمبے دیواری گھڑیال کی طرف پُشت کیے ہوئے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ میرا متلاشی رچرڈ میڈن مجھ تک ایک گھنٹے سے پہلے تو نہیں پہنچ سکتا۔ میرا ناقابل تیسخ ارادہ اس کا انتظار کر سکتا تھا۔
’’کیسی حیرت انگیز زندگی تھی تسوئی پن کی‘‘۔ سٹیفن البرٹ نے کہا ’’اپنے آبائی قصبے کا گورنر، عِلم ہئیت اور عِلم نجوم کا ماہر، اورمذہبی کتابوں کی شرح و بسط میں با کمال، شطرنج کا کھلاڑی، معروف شاعر اور خطاط۔اس نے یہ سب کچھ تیاگ دیا ایک کتاب اور بھول بھلیاں تخلیق کرنے کے لیے ۔ اس نے آمریت کے جبر ، عدل،معروف ازدواجی آسائش، شاہی ضیافتوں اور حتٰی کہ اپنے تبحّر علمی کے تلذذ سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔تاکہ خود کو، روشن خلوت کے خیمے میں، تیرہ سال تک مقید رکھے۔ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے لواحقین کو بے ترتیب مسودوں کے سوا کچھ نہ ملا۔ اس کا خاندان جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے، ان مسودوں کو آگ میں جھونکنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لیکن اس کے وصی نے ، جو تائومت یا بدھ مت کا راہب تھا، ان کی اشاعت پر اصرار کیا۔‘‘
’’اس دن سے ہم تسوئی پن کی اولاد‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’اس راہب پر لعن طعن کرتی ہے۔ان مسودوں کی اشاعت بے معنی تھی۔ وہ کتاب باہم متضاد مسودوں کا ایک مبہم ڈھیر تھی۔ ایک مرتبہ میں نے بھی اس کا معائنہ کیا تھا۔ تیسرے باب میں ہیرو مر جاتا ہے۔ چوتھے باب میں وہ پھر سے زندہ ہوجاتا ہے۔ جہاں تک تسوئی پن کے دوسرے کارنامے کا تعلق ہے، اس کی بھول بھلیاں ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’یہاں تسوئی پن کی بھول بھلیاں ہیں‘‘۔ اس نے ایک لمبے سنہری پالش والے ڈیسک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاتھی دانت کی بھول بھلیاں‘‘ میں چلایا ’’ ایک بہت مختصر بھول بھلیاں‘‘۔
’’استعاروں کی بھول بھلیاں‘‘ اس نے اصلاح کی۔ ’’وقت کی غیر مرئی بھول بھلیاں۔ مجھ جیسے ایک بربریت پسند انگریز کو اس شفاف راز کے انکشاف کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ قریب سو سے زائد برسوں کے بعدتفصیلات ناممکن الحصول ہو جاتی ہیں۔ لیکن یہ قیاس لگانا مشکل نہیں ہے کہ کیا ہوا تھا؟ تسوئی پن نے ضرور ایک بار ایسا کہا ہوگاکہ ’’میں ایک کتاب لکھنے کے لیے سب کچھ چھوڑ رہا ہوں‘‘۔ ایک دوسرے موقع پر کہا ہوگا ’’میں ایک بھول بھلیاں تعمیر کرنے کے لیے تیاگ لے رہا ہوں‘‘۔ ہر کسی نے دو مختلف منصوبوں کو قیاس کیا۔ کسی کو یہ خیال نہ سوجھا کہ کتاب اور بھول بھلیاں ایک ہی اور ایک جیسی شے تھیں۔
روشن خلوت کی شہ نشین باغ کے وسط میں ایستادہ ہے جسے غالباً انتہائی پیچیدہ صورت میں متشکل کیا گیا۔ اس صورت حال سے واقعی ایک طبعی مادی بھول بھلیوں ہی کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ تسوئی پن مر گیا۔ اس کے زیر تحت وسیع و عریض علاقے میں سے کوئی ایک بھی اس بھول بھلیوں تک نہ پہنچ سکا۔ ناول کی پیچیدگی، میرا اشارہ بلاشبہ الجھاؤ کی طرف ہے، سے مجھے خیال آیا کہ وہ بھول بھلیاں یہی تھیں۔ دو مختلف صورت اِحوال مجھے اس مسئلہ کے درست حل تک لے گئیں۔ ایک تو یہ عجیب اسطور کہ تسوئی ایسی بھول بھلیاں تخلیق کرنے کا ارادہ رکھتا تھا جو قطعاًلامحدود ہوں ۔ دوسری صورت ایک خط کا اقتباس تھی جسے میں نے دریافت کیا۔‘‘
البرٹ اٹھ کھڑا ہوا۔دیر تک وہ پشت میری جانب پھیرکر کھڑا رہا۔ پھر سیاہ اور سنہری میز کی درازکھولی۔وہ ہاتھوں میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لیے میری جانب مڑا جو کبھی ارغوانی رنگ کا رہا ہو گا لیکن اب گلابی اور مہین تھا اور مستطیل شکل کا تھا۔اس پر تسوئی پن نے کچھ لکھا تھا۔ بے تابی سے مگر بے سمجھی کے ساتھ میں نے وہ الفاظ پڑھے جنھیں میرے ہی سلسلہ نسب کے ایک فرد نے قلم کی محتاط ضربوں سے لکھا تھا۔’’ میں متعدد مستقبلوں کے لیے (سب کے لیے نہیں) اپنا شاخ دار راستوں والا باغ چھوڑے جا رہا ہوں ۔‘‘میں نے خاموشی سے وہ صفحہ اسے لوٹا دیا۔ البرٹ نے اپنا بیان جاری رکھا۔
’’اس خط کو کھوج نکالنے سے پہلے تک میں یہ سوچ کر حیران ہوتا تھا کہ کیسے ایک کتاب لامحدود ہوسکتی ہے۔اس کے سوا کوئی دوسری بات میری سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ یہ حلقہ دار، دائروی، کتاب ہوگی۔ ایک کتاب جس کا آخری صفحہ پہلے صفحے جیسا ہی ہوگا، تاکہ انسان غیر یقینی انداز میں آگے بڑھتا چلا جائے۔مجھے الف لیلہ و لیلہ کی وہ رات بھی یاد آئی، جب ملکہ شہرزاد (جو نقل کنندہ کی کسی جادوئی سہو کے ذریعے) لفظ بہ لفظ ایک ہزار اور ایک راتوں کی کہانی بیان کرنے لگتی ہے، اس خدشے کے ساتھ کہ وہ پھر سے اسی رات کو نہ پلٹ جائے گی جس سے اس نے سنانا شروع کیا تھا اور یہ سب کچھ ہمیشہ یونہی چلتا رہے۔
میں نے ایک موروثی مسودے کا بھی تصور کیا جو باپ سے بیٹے کو منتقل ہواہو، اور جس میں ہر اگلا شخص ایک باب کا اضافہ کردے یا پُرخلوص عقیدت کے ساتھ اپنے بزرگوں کے صفحات کی اصلاح کرے۔ان قیاس آرائیوں نے مجھے محظوظ کیا اور میری توجہ کو بٹایا۔ لیکن ان میں سے کسی ایک کا بھی مجھے تسوئی پن کے متناقض ابواب سے دور سے بھی واسطہ معلوم نہ ہوا۔انھی پیچیدگیوں کی ناخوش گوار کیفیت میں الجھا ہوا تھا کہ مجھے اوکسفرڈ سے یہ مسودہ موصول ہوا جسے ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ جیسا کہ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس فقرے پر میں ٹھٹھکا ’’میں متعدد مستقبلوں کے لیے (سب کے لیے نہیں) اپنا شاخ دار راستوں والا باغ چھوڑے جا رہا ہوں۔‘‘
تقریباً فوراً ہی میں نے یہ سمجھ لیاکہ وہ ’’شاخ دار رستوں والا باغ‘‘، یہی بے ترتیب ناول تھا۔ اس فقرے نے کہ ’’متعدد مستقبلوں کے لیے (سب کے لیے نہیں)‘‘ مجھ پر آشکار کیا کہ یہ شاخ دار ی وقت میں ہے، خلا میں نہیں۔ مسودے کے بغور مطالعہ نے مجھ پر اس نظریہ کو حتمی طور پر واضح کیا۔ تمام ادبی مسودوں میں انسان کو ہر بارایک سے زائد متبادلات کا سامنا ہوتا ہے۔ وہ کسی ایک کا انتخاب کرتا اور باقیوں کو رد کر دیتا ہے۔ حقیقتاً سلجھائے نہ جاسکنے والے تسوئی پن کے ادب میں کردار بیک وقت سبھی متبادلات کا انتخاب کرتا ہے۔
اس طور پر وہ گونا گوں مستقبل اور گونا گوں زمان تخلیق کرتا ہے جو بجائے خود تیزی سے نمو پاتے اور شاخ دار ہوجاتے ہیں۔ یہی ناول کے تناقضات کی وضاحت بھی ہے۔ مثلاً میں کہتا ہوں کہ فانگ کے پاس ایک راز ہے، ایک اجنبی اس کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ فانگ اسے قتل کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ قدرتی طور پر اس کے متعدد نتائج ہوسکتے ہیں۔ فانگ اس دخل انداز کو قتل کر سکتا ہے۔ دخل درانداز، فانگ کو قتل کر سکتا ہے۔دونوں بچ سکتے ہیں۔دونوں ہی مر سکتے ہیں۔ علیٰ ہذا لقیاس۔
تسوئی پن کے ناول میں تمام ممکنہ صورتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ان میں سے ہر صورت مزید تقسیم کا نقطہ آغاز بنتی ہے۔ کبھی بھول بھلیوں کے راستے متصل ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اس گھر تک پہنچتے ہیں۔ لیکن ممکنہ ماضیوں میں سے کسی ایک ماضی میں ہوسکتا ہے آپ میرے دشمن ہوں۔کسی دوسرے ماضی میں آپ دوست ہوں گے۔اگر آپ میرے ناقابل اصلاح تلفظ کو گوارہ کرسکیں تو میں آپ کو چند صفحے پڑھ کر سنائوں۔‘‘
لیمپ کی روشنی کے چمکیلے دائرے میں اس کا چہرہ بلاشبہ ایک بوڑھے کا چہرہ معلوم ہو رہا تھا، کچھ پرعزم ، اور حتی کہ کچھ غیر فانی تاثرلیے ہوئے۔ اس نے آہستہ رو درستگی کے ساتھ ایک ہی رزمیہ باب کے دو روپ پڑھے۔ پہلے روپ میں ایک فوج ایک پہاڑی ویرانے سے ہوکر جنگ کے لیے روانہ ہوتی ہے۔ چٹانوں اور تاریکی کی دہشت جوانوںمیں زندگی کے لیے نفرت کو مہمیز کرتی ہے اور وہ ایک آسان فتح کی طرف بڑھتے ہیں۔ دوسرے روپ میں وہی فوج ایک محل میں سے گزرتی ہے جہاں ایک میلہ برپا ہے۔ تاباں جنگ انھیں اسی جشن کا ایک تسلسل معلوم ہوتی ہے اور وہ آسانی سے فتح حاصل کر لیتے ہیں۔
میں نے ان قدیم کہانیوں کو گہری تعظیم کے ساتھ سنا جو اتنی غیر معمولی نہیں تھیں جتنی یہ حقیقت کہ میرے سلسلہ نسب ہی کے ایک آدمی نے اسے تخلیق کیا اور اسے دور دراز ملک کے ایک فرد کی مایوس کن مہم کے دوران مجھ پر آشکار کیا۔ مجھے اختتامی الفاظ یاد ہیں جنھیں ہر رُوپ میں ایک خفیہ حکم کے طور پر دہرایا گیا ’’یوں سورما لڑے، ان کے دل پرسکون تھے، ان کی تلواریں متشدد، وہ مارنے اور مرجانے پر آمادہ تھے۔‘‘
اس لمحہ سے میں نے اپنے آپ میں اور اپنے مبہم بدن میں ایک غیر مرئی، غیر معلوم افزائش کی موجودگی محسوس کی، کسی منتشر، متوازی اور بعدازاں مربوط ہوجانے والی فوجوں کی نہیں بلکہ ایسی افزائش کی موجودگی جسے فوجوں نے پہلے سے تصور کر لیا تھا۔ سٹیفن البرٹ نے بات جاری رکھی:
’’مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ کے عالی مرتبت جدامجد فضول ہی ان تغیرات سے الجھتے رہے۔مجھے یہ بات اغلب معلوم نہیں ہوتی کہ انھوں نے ایک خطیبانہ ریاضت کی لامحدود کارکردگی کے لیے اپنے تیس برسوں کی قربانی دی۔ آپ کے ملک میں ناول ادب کی ایک ضمنی صنف ہے۔ تسوئی پن کے وقتوں میں یہ ایک سفلی صنف تھی۔ تسوئی پن ایک فطین ناول نگار تھا لیکن وہ اعلیٰ علمی مرتبے کا حامل تھااور اس نے بلاشبہ خود کو محض ایک ناول نگار نہیں سمجھا۔
اس کے معاصرین نے اس کے مابعدالطبیعیاتی، پراسراررجحانات کی توثیق کی جب کہ اس کی زندگی ان رجحانات کی تائید تھی۔ فلسفیانہ مناقشہ ناول کے ایک عمدہ حصے کواپنی اوٹ میں کرلیتا ہے۔میں جانتا ہوں کہ ان مسائل میں سے کسی ایک نے بھی اسے اتنا پریشان نہ کیا ہوگااور نہ اتنا الجھایا ہوگاجتنا وقت کے عمیق مسئلہ نے۔کتنی عجیب بات تھی کہ یہ مسئلہ ہی ایسا تھاجس کا اس کے باغ کے صفحات میں ذکر نہیں ہوا۔اس نے کبھی یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ آپ اس ارادی فروگذاشت کی کیا وضاحت پیش کریں گے؟‘‘
میں نے چند ایک حل تجویز کیے۔ سبھی غیر تسلی بخش۔ ہم نے ان پر بحث کی۔ آخرکار سٹیفن البرٹ نے کہا،’’ایک پہیلی میں، جس کا جواب ،شطرنج، ہے، وہ کونسا واحد ممنوعہ لفظ ہو گا جو استعمال نہیں ہوا ہوگا۔‘‘
میں نے لمحہ بھر کے لیے تفکر کیا اور جواب دیا ’’شطرنج‘‘
’’بالکل درست‘‘ البرٹ نے کہا ،’’شاخدار راستوں والا باغ ایک بہت بڑی پہیلی یا معما ہے جس کا موضوع وقت ہے۔ یہی خفیہ مقصد اسے یہ نام دینے میں مانع ہوا۔ ایک لفظ کو ہمیشہ بھول جانا، نامناسب استعاروں اور واضح ہیرپھیرسے رجوع کرنا، اس لفظ کی طرف توجہ دلانے کا شاید سب سے تاکیدی انداز ہے۔ بہرطور یہی وہ دشوار گزار راستہ ہے جسے کج ادا تسوئی پن نے اپنے انتھک ناول کے ہر پھیر میں ترجیحاً برتا۔ میں سینکڑوں مسودوں کا باہم موازنہ کر چکا ہوں۔ میں ان اغلاط کی تصیح کر چکا ہوں جو نقل کنندوں کی غفلت سے واقع ہوئیں۔ میں نے اس انتشار کے منصوبے کے لیے ایک مفروضہ وضع کیا۔ میں نے اس کی بنیادی ترتیب کی تشکیل نو کی یا مجھے یقین ہے کہ میں نے ایسا ازسر نو کیا۔ میں نے تمام مسودے کا ترجمہ کیااور میں جانتا ہوں کہ ایک بار بھی یہ لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ اس کی وضاحت سہل ہے۔
شاخدار راستوں والا باغ کائنات کی، جیسا کہ تسوئی پن نے تصور کیا، ایک نامکمل شبیہ ہے مگر نادرست نہیں۔ نیوٹن اور شوپن ہار کے برعکس آپ کے جدّ ایک یکساں اور مطلق وقت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔ وہ وقتوں کے ایک لامحدود سلسلہ پر یقین رکھتے تھے، وقتوں کا ایک منتشر، مرتکز اور متوازی طورپر پھیلتااور چکر کھاتا ہوا جال۔وقتوں کی یہ ساخت جس میں وقت ایک دوسرے سے رجوع کرتے، ایک دوسرے سے الجھتے ہیں، ایک دوسرے کو کاٹتے یا جیسا کہ صدیوں سے اس بارے میں کسی کو علم نہ ہوسکا کہ وہ سبھی ممکنات کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر وقتوں میں ہم موجود نہیں ہوتے۔ کسی وقت میں تم موجود ہوتے ہو لیکن میں موجود نہیں ہوتا۔ دوسرے وقتوں میں، میں موجود ہوتا ہوں لیکن تم نہیں۔ جب کہ مختلف وقتوں میں ہم دونوں ہی موجود ہوتے ہیں۔
اس خاص وقت میں اتفاق کے موافق ہاتھ نے مجھے شرف یاب کیا کہ آپ میرے گھر تشریف لائے۔کسی دوسرے وقت میں ہوسکتا ہے اس باغ میں سے گزرتے ہوئے آپ مجھے مردہ پائیں۔ یونہی ایک دوسرے وقت میں، میں یہی الفاظ کہتا ہوں لیکن میں ایک سہو ہوسکتا ہوں، ایک بھوت۔
’’ہر وقت میں‘‘ میں نے آواز میں معمولی لغزش پیدا کیے بغیر کہا، ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں گا اور تسو ئی پن کے باغ کی تخلیق نو پر آپ کی قدر کرتا ہوں۔‘‘
’’سب وقتوںمیں نہیں‘‘ وہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ بڑبڑایا ’’وقت مسلسل لاتعداد مستقبلوں میں شاخ در شاخ تقسیم ہوجاتا ہے۔ انھی میں سے ایک وقت میں میں آپ کا دشمن ہوں‘‘۔
ایک بار پھر سے مجھے ہجوم کی سی کیفیت کا احساس ہوا جس کا مجھے پہلے تجربہ ہوا تھا۔ یوں معلوم ہوا کہ یہ مرطوب باغ جس نے گھر کو گھیرا ہواتھا، غیر محدود طور پر غیر مرئی لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ لوگ ’’البرٹ اور میں‘‘ تھے، جو وقت کی مختلف سمتوں میں خفیہ، مصروف کاراور کثیرالاشکال تھے۔ میں نے اپنی آنکھیں اوپر اٹھائیں اور یہ ڈرائونا خواب تحلیل ہو گیا۔ زرد اور سیاہ باغ میں صرف ایک آدمی تھا۔ لیکن وہ ایک بت کی طرح مضبوط تھا۔ وہ راستے پر چلتا ہوا قریب آ رہا تھا اور وہ کیپٹن رچرڈ میڈن تھا۔
’’مستقبل تو پہلے سے موجود ہے‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’لیکن میں آپ کا دوست ہوں، کیا میں وہ خط دوبارہ دیکھ سکتا ہوں‘‘۔
البرٹ اٹھ کھڑا ہوا۔ سیدھا کھڑے کھڑے اس نے لکھنے کی میز کی دراز کھولی۔ اس کی پشت میری جانب تھی۔ میں نے اس پر ریوالور تان لیا۔ انتہائی احتیاط کے ساتھ گولی چلائی۔ کوئی حرف شکایت بلند کیے بغیر البرٹ نیچے گر گیا۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ اس کی موت محض لمحہ بھر میں ہوئی۔ ایک ہلکی جنبش کی طرح۔
باقی سب کچھ غیر حقیقی، غیراہم ہے۔ میڈن اندر گھس آیا اوراس نے مجھے گرفتار کر لیا۔ مجھے پھانسی کا سزاوار قرار دیا گیا۔ میں انتہائی ناگوار انداز میں جیت گیاتھا۔میں نے برلن تک ا س شہر کے خفیہ نام کی ترسیل کر دی جس پر انھیں حملہ کرنا چاہیے تھا۔ کل ہی انھوں نے اس پر بمباری کی۔ میں نے یہ خبر انھی اخباروں میں پڑھی جو انگلستان بھر میں ایک اجنبی یوتسون کے ہاتھوں چینی زبان و ثقافت کے معروف عالم البرٹ سٹیفن کے قتل کے معمے کو زیر بحث لائے تھے۔ چیف نے یہ معمہ حل کر لیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ میرا مسئلہ (جنگ کے کان پھاڑ دینے والے شوروغوغا میں) البرٹ نامی ایک شہر کی نشاندہی کرنا تھا اور یہ کہ میرے پاس ایسا کرنے کے لیے اسی نام کے ایک شخص کو قتل کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ لیکن وہ نہیں جانتا (نہ کوئی جان سکتا ہے)میری بے حساب ندامت اور تھکاوٹ کو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment