ممتاز نعت گو شاعرمظفر وارثی ۔۔۔ ماجد یزدانی

ممتاز نعت گو شاعرمظفر وارثی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ غالباً 2010ءکی بات ہے ،میں ان دنوں رائٹرز گلڈ میں ذمہ داریاں سر انجام دے رہا تھا،کسی دوست نے ذکر کیا کہ مظفر وارثی بہت بیمار ہیں ،آپ رائٹرز گلڈ کی جانب سے اکادمی ادبیات کو ان کی امداد کے لیے خط لکھیں،ان دنوں ممتاز لکھاری اور دانشورجناب فخر زمان اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین تھے، میں نے ان سے رابطہ کیا،انہوں نے دس ہزار رپے کا چیک اکادمی کی جانب سے مظفر وارثی کے نام بھجوا دیا۔ میں نے اسی وقت وارثی صاحب کو وہ چیک بھجوایا تو کچھ روز بعد وہ چیک مجھے شکریہ کے ساتھ واپس مل گیا، میرا ان کی اہلیہ محترمہ سے رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ وارثی صاحب نے وہ چیک واپس کرنے کا کہا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ساری زندگی ادب کی خدمت کا صلہ ہے تو مجھے قبول نہیں، میں اتنا گیا گزرا نہیں کہ اکادمی کی یہ قلیل سی امداد لے کرخود کوآزمائش میں ڈال لوں،آپ کا شکریہ کہ آپ نے وارثی صاحب کے لیے اکادمی سے رابطہ کیا۔

اس واقعے کا ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مظفر وارثی ایک خود دار انسان تھے،ساری عمر ادب کی تخلیق میں گزاری مگر ستائش سے بے پروا ہوکر۔ بہت عرصہ قبل استاد شاعر احسان دانش نے لکھا کہ نئی طرز کے لکھنے والوں میں جدید غزل کا معیار مظفر وارثی کی غزل سے قائم ہوتا ہے۔مظفروارثی کے شعروں میں خاص طورپرغزلوں میں  

کرب، انا، سچائی، دھوپ چھاؤں، روپ رنگ، لمحوں کارنگ، یہ سب کیفیات موجودہیں۔مظفر وارثی 23 دسمبر 1933ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے ، ان کا اصل نام محمد مظفر الدین صدیقی تھا ، قیامِ پاکستان کے بعد مظفر وارثی نے لاہور میں رہائش اختیار کی اور جلد ہی ان کا شمار ممتاز شعراء میں ہونے لگا، انہیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی عطا کیا گیا، ممتاز نقاد ڈاکٹر انور سدید کہتے ہیں:"مظفر وارثی جب حمدونعت نگاری کی طرف آئے تو انہوں نے فلمی گیت نگاری کو یک سر ترک کردیا اور سچ تو یہ ہے کہ ان کی نعت نگاری نے ان کی غزل کو پس منظر میں دھکیل دیا۔ ان کی نعت کو قبولِ عام عقیدت کی فراوانی اور جذبے کی نئی بنت کاری نے دیا، لیکن ان کی مقبولیت میں ان کا ترنم بھی شامل تھا جس کی لَے ان کی اپنی اختراع تھی اور لحن ایسا کہ جس کی تقلید نہیں کی جاسکتی تھی۔ وہ نعت کو اپنی عقیدت کے والہانہ اظہار کا وسیلہ سمجھتے تھے اور اس کے ابلاغ عامہ کے لیے ہمیشہ آسان الفاظ کا انتخاب کرتے۔ غزل کو جدید پیکر عطا کرنے والے مظفر وارثی نے اردو نعت کو بھی نئی تاب و توانائی، خیال کی رفعت اور جذبے کی ندرت عطا کی ہے۔

مظفر وارثی کے نعتیہ مجموعوں میں’’باب حرم‘‘، ’’نورِازل‘‘، ’’ کعبہءعشق‘‘، ’’دل سے درِ نبی تک‘‘، ’’میرے اچھے رسول‘‘، ’’صاحب التاج‘‘ اور اُمیّ لقبی‘‘ بہت معروف ہیں۔ حمدوثناء کے حوالے سے ان کے دو مجموعے ’’الحمد‘‘ اور ’’لاشریک‘‘ کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ مظفر وارثی اپنی زندگی میں عوامی پذیرائی اور شہرت ِ عامہ سے کبھی محروم نہیں ہوئے، تاہم انہیں یہ احساس بھی تھا کہ ان کے معاصرین نے نعت خوان کہہ کر ان کی قدروقیمت کم کرنے کی کوشش کی تھی اور ان کی نعت نگاری کے ساتھ ان کی غزل نگاری کی تحسین سے بھی گریز کیا گیا۔ حسن رضوی کو انٹرویو دیا تو مظفر وارثی نے خاصے تلخ انداز میں کہا:

’’نعت خوان میرے ان خیرخواہوں کا دیا ہوا لقب ہے جو مجھے غزل کا شاعر تسلیم نہیں کرتے تاکہ میری غزل پس منظر میں چلی جائے۔ جب میں غزل کہتا تھا تب انہیں میری غزل سے وہی تکلیف پہنچتی تھی جو اب میری نعت سے ہوتی ہے (حالانکہ) میں پہلے کی طرح ہی غزل بھی لکھتا ہوں۔ میں کسی کو نقاد تسلیم نہیں کرتا کیوں کہ ابھی تک ہمارے ملک میں ایسا کوئی نقاد پیدا نہیں ہوا جو بالکل غیر جانب دار ہوکر پورے ادب پر تبصرہ کرے ۔۔۔‘‘

اور یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ مظفروارثی نے اپنے عہد کے نقاد سے بے نیاز ہوکر اپنی غزلیات کا پہلا مجموعہ 1972ء میں ’’برف کی ناؤ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ نظموں اور گیتوں کے حوالے سے ان کے مجموعے ’’حصار‘‘، ’’ظلم نہ سہنا‘‘، ’’لہو کی ہریالی‘‘، ’’پربت‘‘، اور ’’کمند‘‘ چھپ چکے ہیں۔ ’’گئے دنوں کا سراغ‘‘ ان کی خودنوشت سوانح عمری کا عنوان ہے ۔

مظفر وارثی اسٹیٹ بینک کی ملازمت سے فارغ ہوئے تو ’’انقلاب ِاسلام‘‘ کا نظریہ لے کر وہ طاہرالقادری کی جماعت میں شامل ہوگئے۔ وہ میدانِ عمل میں ایک سپاہی کی طرح اترے تھے لیکن جب طاہرالقادری کی جماعت کا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھا تو مایوس ہوگئے اور واپس یہ تاثر لے کر آگئے کہ: ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘۔ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری علالت تک ’’نوائے وقت‘‘ میں سیاسی قطعات لکھے اور پھر یہ علالت ہی ان کے لیے کوہِ ندا کا بلاوا بن گئی۔

Related posts

Leave a Comment