مشکل سہی وجود سے باہر نکل کے آ
زندان کی حدود سے باہر نکل کے آ
مجھ پر یہ لفظ ہُو بھی ابھی تک نہیں کھلا
واعظ ذرا سجود سے باہر نکل کے آ
پہنے ہوئے ہیں سب نے یہاں پر سیہ لباس
مطرب تو اب سرود سے باہر نکل کے آ
کرتا ہے خود کو کس لیے روپوش سائیاں
اک بار اس جمود سے باہر نکل کے آ
حر سا مقام تجھ کو ملے گا اے جنگجو
باطل کے تو جنود سے باہر نکل کے آ