افتخار شاہد ۔۔۔ فقیروں کی صداؤں سے کُھلا ہے

فقیروں کی صداؤں سے کُھلا ہے
فقیروں کو یہ در اچھا لگا ہے

ثمر کے بوجھ سے شاخیں جھکی ہیں
پرندوں کو شجر اچھا لگا ہے

پسِ پردہ تمہارا ڈانٹنا بھی
مرے بیدادگر اچھا لگا ہے

وہ سب کے حال سے واقف ہے لیکن
بظاہر بے خبر ! اچھا لگا ہے

تری بے فیض بستی سے نکل کر
بھٹکنا دربدر اچھا لگا ہے

کشیدہ قامتی پسرِ علی کی
سرِ نیزہ وہ سر اچھا لگا ہے

اگرچہ آئنے چٹخے پڑے ہیں
مگر وہ دیدہ ور اچھا لگا ہے

دیا جو طاق میں جلتا تھا شاہد
تمہارے بام پر اچھا لگا ہے

Related posts

Leave a Comment