صفدر صدیق رضی ۔۔۔ 1985

ہر شخص خیال و خواب ہوا
ہر چہرہ نقش بر آب ہوا
ہر شعلۂ گل برفاب ہوا
ہم جن کے لیے بدنام ہوئے
وہ سارے عشق تمام ہوئے
اب موجِ ہوا کا ساتھ نہیں
وہ ابر نہیں برسات نہیں
وہ چاند نہیں وہ رات نہیں
کام آئے یا ناکام ہوئے
وہ سارے عشق تمام ہوئے
دامن پر کوئی داغ نہیں
اب طاق میں کوئی چراغ نہیں
اس دل کا کہیں سراغ نہیں
جس کے افسانے عام ہوئے
اب سارے عشق تمام ہوئے
اب اور کسی کا ساتھ نہیں
اب ہاتھ میں کوئی ہاتھ نہیں
اب پہلے سے جذبات نہیں
بے مول ہوئے بے دام ہوئے
اب سارے عشق تمام ہوئے
دروازے پر دو آنکھیں ہیں
اس در کی اوٹ میں سانسیں ہیں
کچھ وعدے کچھ امیدیں ہیں
کچھ خوشیاں اور نویدیں ہیں
اک عشق کہ جو پائندہ ہے
جو عشق ہمیشہ زندہ ہے
وہ عشق جو مجھ کو گھر سے ہے
گھر کے دیوارودر سے ہے
جس گھر میں سب کا جیون ہے
جس آنگن میں تن من دھن ہے

Related posts

Leave a Comment