آفتاب خان ۔۔۔ جس جس کا زَبر ، زیر بھی یا پیش غلط ہے

جس جس کا زَبر ، زیر بھی یا پیش غلط ہے
اُس اُس کا تلفّظ بھی کم وبیش غلط ہے

تسبیح دکھاوے کی لیے گھومتے ہیں سب
اِس دور کا ہر ایک ہی درویش غلط ہے

کب سے ہی گلے میں ہے پڑا طوقِ غلامی
ہم کو ہے جو درپیش، وہ درپیش غلط ہے

انسان سے نفرت کا جو پرچار کرے گا
مَسلک بھی غلط اُس کا ہے اور کیش غلط ہے

نرمی کے تقاضے کی ہے درخواست گزاری
ہم اہلِ محبت پہ تراطیش غلط ہے

قبضہ تو اُسی کا ہے سبھی لعل و گہر پر
قسمت سے ہمیں جو ہے ملا ، شیش غلط ہے

دے کر وہ گیا ہے ہمیں اک ہجرِ مسلسل
دل پر جو لگایا ہے وہی ریش غلط ہے

تِل بھر بھی اگر ہو تو یہ کافی ہے محبت
کیوں تو یہ سمجھتا ہے ترا خویش غلط ہے

اک وقت مقرر پہ ملے اوجِ ثرّیا
یہ کس نے کہا تم سے کہ راکیش غلط ہے

دستار پہ سب کی ابھی کیچڑ نہ اُچھالو
کچھ لوگ غلط ہیں یہاں ، کب دیش غلط ہے

Related posts

Leave a Comment