آفتاب خان ۔۔۔ باپ مفلس ہو تو پھر ہاتھ بٹانے کے لیے

باپ مفلس ہو تو پھر ہاتھ بٹانے کے لیے
بیٹیاں گھر سے نکلتی ہیں کمانے کے لیے

یہ ہے بازارِ ہوس، لوگ شکاری ہیں یہاں
حُسن کو سب سے بچا، عشق بچانے کے لیے

تیری مجبوری سے اوروں کو سروکار نہیں
دائو پر خود کو لگا، قرض چکانے کے لیے

کوئی بھی شخص تجھے دادِ وفا دے گا نہیں
پیار کب پیار ہے بے درد زمانے کے لیے

وصل کی شام اُداسی میں گزر جاتی ہے
خود کو تیار کروں، ہجر منانے کے لیے

عشق کے گرم جزیرے میں چلا آیا ہوں
ساحلِ دید ملے، پیاس بجھانے کے لیے

میری بے چین طبیعت کو قرار آئے گا
پھر سے وہ آئے اگر، نین ملانے کے لیے

Related posts

Leave a Comment