اکرم کنجاہی ۔۔۔ اس محبت کے دئیے کرب کے پہلو کتنے

اس محبت کے دئیے کرب کے پہلو کتنے
درد جاگے، تو جگا جاتا ہے آنسو کتنے

اپنی مٹھی میں لیے اورمرے رستوں کے
دیکھ! سورج نے فنا کر دئیے جگنو کتنے

زندگی جون کی جب دھوپ بنی،یاد رہے
سایہ سایہ سے ہمہ وقت تھے گیسو کتنے

آنکھ جھپکی تھی، خطا تھی کہ کوئی بھول سی تھی
روز اِس رو ح کے عنقا ہوئے آہو کتنے

کتنے ظالم ہیں گزرتے ہوئے ایّام کہ اب
آئنہ توڑ کے خوش باش ہیں کم رو کتنے

ذات میری ہو کہ تیری، ہے یہاں بکھری پڑی
ہم محبت میں مری جان تھے یک سو کتنے

پہلے اندازہ مری ذات کے گرداب کا کر
سوچنا پھر ترے مضبوط ہیں چپّو کتنے

Related posts

Leave a Comment