توقیر عباس ۔۔۔ کیا آخرت کا رنج کہ بھوکے ہیں پیٹ کے

کیا آخرت کا رنج کہ بھوکے ہیں پیٹ کے
ہم لوگ خوش ہیں آج بھی دنیا سمیٹ کے

کتنی تھی احتیاج ہمیں آفتاب کی
بیٹھے تھے کچھ پہاڑ بھی برفیں لپیٹ کے

مہکا ہوا تھا روحوں میں بارِد شبوں کا غم
ہم لوگ کاٹتے رہے دن ہاڑ جیٹھ کے

ہم سامنے تھے میز پہ اک دکھ کے ساۓ تھے
بس نقش دیکھتے رہے خالی پلیٹ کے

ٹھوکر لگی تو صف کی طرح جسم کھل گئے
اک سمت رکھ دیے تھے کسی نے لپیٹ کے

رکھا تھا رات بھر ہمیں بے چین ہجر نے
آرام ہم کو بیٹھ کے آیا نہ لیٹ کے

برسوں کا ایک زخم کہاں مندمل ہوا
بیٹھا رہا پرندہ پروں کو سمیٹ کے

توقیر کرچیوں میں اسے ڈھونڈتے رہو
اک آئنے میں عکس رکھے تھے سمیٹ کے

Related posts

Leave a Comment