جلیل عالی ۔۔۔ اُسے سب موسموں ملنے کے کتنے راستے تھے

اُسے سب موسموں ملنے کے کتنے راستے تھے
مگر دل کی رُتیں اپنی تھیں ، اپنے فیصلے تھے

فضا میں ہر کسی آواز کا اپنا بھنور تھا
سمندر میں ہراک پتھر کے اپنے دائرے تھے

عجب تبدیلیاں آب و ہوا میں آرہی تھیں
پرندے اجنبی دیسوں کو ہجرت کر رہے تھے

سفر در پیش تھا خواہش کے تِیرہ جنگلوں کا
دلوں میں خواب روشن منظروں کے جاگتے تھے

رفیقوں نے تو صحرائوں سا ویراں کر دیا ہے
میں تنہا تھا تو امیدوںکے کتنے قافلے تھے

Related posts

Leave a Comment