خالد علیم ۔۔۔ اے آنکھ بہت لہو نہ ٹپکا

اے آنکھ بہت لہو نہ ٹپکا
جائے گا کہاں یہ جی کا لپکا

آئینہ کلام کر رہا ہے
اے میرے جنوں! پلک نہ جھپکا

جب عشق رگوں میں تیرتا تھا
کیا زور تھا حشر سوز تپ کا

یوں ہی تو جگر نہ خوں ہوا تھا
دل نے دیا راستہ جھڑپ کا

یوںہی نہیں کچھ اِدھر اُدھر ہم
رشتہ کوئی راست سے ہے چَپ کا

سینے میں اُتر گیا تھا بھالا
اُس آتشِ جاں تپاں کی تَپ کا

کس خواب نے رات آنکھ بھر دی
منہ پر دیا تیرے غم نے چھپکا

اب راکھ کا ڈھیر ہے کہ دل ہے
ارمان نکل گیا تڑپ کا

خالد!۔۔۔خاموش! اور خاموش!
ہے شور ہوا میں دَھول دَھپ کا

Related posts

Leave a Comment