سید بادشاہ جلالی ۔۔۔ بے رخی اپنی پہ اب آنسو بہانا ہے عبث

بے رخی اپنی پہ اب آنسو بہانا ہے عبث
اب مری میت پہ جانم تیرا آنا ہے عبث

بھر چکی ہے دل کی نگری رنجِ جاناں سے مری
اے غم دوراں مرے من میں سمانا ہے عبث

چل رہی ہے چار سو بے اعتباری کی ہوا
اس زمانے میں کسی کو آزمانا ہے عبث

ڈوبنا جو چاہتے ہیں بالارادہ خود بہ خود
ناخدا پھر ان کی کشتی کو بچانا ہے عبث

بات ہوتی ہے میاں اپنے نصیبوں کی سدا
بغض و کینہ پال کے دل کو جلانا ہے عبث

کوہ و صحرا سے نہیں گزرے جو تیرا کارواں
دل میں منزل کا تصور تک بھی لانا ہے عبث

اب بنا پھرتا ہے ہر اک فرد اپنا رہنما
اب خضر کو ڈھونڈ کر ہادی بنانا ہے عبث

Related posts

Leave a Comment