شاہنواز زیدی ۔۔۔ تیرے چہرے سے شروع، اور ترے چہرے پہ تمام

تیرے چہرے سے شروع، اور ترے چہرے پہ تمام
میری تصویر کشی، گائیکی اور میرا کلام

تیری تخلیق سے ظاہر ہے کہ تو ہے موجود
نامور ہوں تو مصور کبھی لکھتے نہیں نام

مجھے دے دے لب پیمانہ ابھرتا مہتاب
اور درِ یار کی دہلیز پہ جھکتی ہوئی شام

اسپِ خوددار سے سیکھو مرے محبوب کے ناز
زردۂ گل سے اٹھاؤ مرے پی کے پیغام

حرف رہ جاتے ہیں، مفہوم بدل جاتے ہیں
آنکھ والوں کو تو کافی ہے ترا جلوۂ عام

موت کے بعد اگر بن نہیں سکتا واحد
کیسے ممکن ہے کہ مل جائے مجھے عمرِ دوام

روز شاخوں پہ نئے پھول نکل آتے ہیں
نئے آغاز سے ہوتا ہے پرانا انجام

Related posts

Leave a Comment