شہاب اللہ شہاب … میری باتیں سن کے پر سب پنچھیوں کے جھڑ گئے

میری باتیں سن کے پر سب پنچھیوں کے جھڑ گئے
غم کی ارزانی سے پتے ٹہنیوں کے سڑ گئے

اس کی منزل اتنی مشکل تھی بتاؤں کیا تجھے
یاد آئی جب کبھی، پاؤں پہ چھالے پڑ گئے

میں ذرا سا ہی رکا تھا اک شجر کے سائے میں
درد کو محسوس کرکے برگ سارے جھڑ گئے

علم جن کے پاس تھا سو وہ سراپا عجز تھے
دور تھے منطق سے جو وہ اپنی ضد پر اڑ گئے

زہر میں کچھ اس قدر ڈوبے ہوئے الفاظ تھے
آئنہ دیکھا تومیرے ہونٹ نیلے پڑ گئے

اپنی ہی تہذیب کو ہم دفن ہوتا دیکھ کر
شرم کے مارے جہاں تھے ہم وہیں پر گڑ گئے

وہ گلے لگ کر ملا تو میں نے یہ دیکھا شہاب!
خالی آنکھوں میں محبت کے نگینے جڑ گئے

Related posts

Leave a Comment