عطا العزیز ۔۔۔ دو غزلیں

کس کس طرح سے مجھکو ستانا ہے سوچ لے
ہے وقت کم جہان سے جانا ہے سوچ لے

جس کو بجھا کے پھینک رہا ہے بوقتِ صبح
پھر سے اسی دیے کو جلانا ہے سوچ لے

اسکی حدوں سے دور نکلنا فضول ہے
آخر اسی کے پاس ہی آنا ہے سوچ لے

اس کے لیے تو کچھ نہیں صورت گری میاں
کچھ دیر اس نے چاک گھمانا ہے سوچ لے

سوتا ہے میٹرس پہ جو تکیے لگا کے تو
آخر کو ایک اینٹ سرہانہ ہے سوچ لے

دستِ ہنر سے جس کے شفایاب تو ہوا
اس شخص نے ہی زخم لگانا ہے سوچ لے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل کہ آواز لگاتا ہی چلا جاتا ہے
اور پھر سانس کہ آتا ہی چلا جاتا ہے

اک طرف کوئی بجھاتا ہے چراغوں کو مگر
اک طرف کوئی جلاتا ہی چلا جاتا ہے

نیند ایسی ہے کہ آنکھیں نہیں کھلتیں میری
اور فسانہ وہ سناتا ہی چلا جاتا ہے

بستیاں ہیں کہ سبھی غرق ہوئی جاتی ہیں
اور ملہار وہ گاتا ہی چلا جاتا ہے

میں نے جس راہ سے جانا ہو وہاں پہلے سے
کوئی دیوار اٹھاتا ہی چلا جاتا ہے

میں نے دیکھا ہے یہی وہ ہے رحیم اور کریم
مولوی جس سے ڈراتا ہی چلا جاتا ہے

میں کہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہوں اس کی جانب
وہ مری عمر گھٹاتا ہی چلا جاتا ہے

Related posts

Leave a Comment