فہیم شناس ۔۔۔ آہٹ سی ایک دل میں کہیں جاگتی رہی

آہٹ سی ایک دل میں کہیں جاگتی رہی
خاموش ساری رات ہی ساری گلی رہی

لہروں سے اُس کے بال شفق سا لباس تھا
ساحل پہ کتنی دیر قیامت کھڑی رہی

وہ تیرا انتظار تھا یا کربِ ذات تھا
آنکھوں میں ساری عمر گلابی نمی رہی

ایسی خزاں کہ ہو گیا نابود گلستاں
شاخِ نہال ِ غم جو ہری تھی ہری رہی

وہ کربلا کا دشت ، وہ سجدہ، وہ تیز دھوپ
پھر نبضِ کائنات وہیں پر تھمی رہی

تاعمر اُس کی لو سے دمکتا رہا یہ دل
وہ یاد طاقچے میں ہمیشہ جلی رہی

ایسے جیے اور اتنا جیے تو کمال ہے
دل میں ہزار درد،لبوں پر ہنسی رہی

میں تو اُسے پکار کے خاموش ہو گیا
ساحل پہ اُس کے بعد ہوا چیختی رہی

Related posts

Leave a Comment