نادیہ سحر ۔۔۔ پھر وہی کرب‘ وہی دکھ‘ وہی تنہائی ہے

پھر وہی کرب‘ وہی دکھ‘ وہی تنہائی ہے
آخرِ کار وہیں زندگی لے آئی ہے

شدتِ درد سے دل خون ہوا ہے میرا
گھاؤ پہلے تھا جہاں چوٹ وہیں کھائی ہے

تجھ پہ حق ہے نہ تری یاد پہ حق ہے میرا
اجنبی میرے فقط تجھ سے شناسائی ہے

ایسا لگتا ہے ہر اک آنکھ مجھے دیکھتی ہے
ایسا لگتا ہے ہر اک شخص تماشائی ہے

لوٹ آئی ہوں میں پھر عہدِ گزشتہ کی طرف
ان خرابوں سے تو برسوں کی شناسائی ہے

تم بھی ہو ہم سے گریزاں تو کوئی بات نہیں
ہم نے بھی تم سے نہ ملنے کی قسم کھائی ہے

یاد ہے جس میں سحر مات ہوئی تھی مجھ کو
وقت نے پھر سے کہانی وہی دہرائی ہے

Related posts

Leave a Comment