غزل در غزل جو کہی جا رہی ہے
اذیت مسلسل سہی جا رہی ہے
ریاست بنی تھی مدینہ کی خاطر
بنامِ مدینہ لُٹی جا رہی ہے
بناکر بھکاری سیاسی لٹیرے
کہیں گے ، ارے ! بے بسی جا رہی ہے
غریبوں کو بہلانے کے واسطے پھر
حکایت نئی اِک گھڑی جا رہی ہے
حسین و حسن پر ستم جب سے ٹوٹا
صدی جو بھی ہے ماتمی جا رہی ہے