نوید صادق ۔۔۔ فصیلِ ضبط سے ٹکرا کے سر ہی پھوڑے گی

فصیلِ ضبط سے ٹکرا کے سر ہی پھوڑے گی
تری صدا جو مرے رُخ سے منہ نہ موڑے گی

ابھی تو وقت کو تاوان دے کے بیٹھا ہوں
ابھی حیات مرا ساتھ کیسے چھوڑے گی

میں ایک عمر سے بیٹھا ہوں کوہِ فرقت پر
صداے ربط کسی دن تو آ جھنجھوڑے گی

بطونِ سنگ سے خوشبو نچوڑنے کی روش
مجھے خبر ہے، کہیں کا نہ مجھ کو چھوڑے گی

یہ سادہ کاریٔ فطرت، یہ مصلحت کوشی
مری رگوں سے کہاں تک لہو نچوڑے گی

نوید وقت سے پہلے ہی چل پڑوںگھر سے!
تھکن سفر کی مرے حوصلے نہ توڑے گی؟

Related posts

Leave a Comment