کبیر اطہر ۔۔۔ ہاتھ اوروں کے خرابوں میں نہ ڈالا کیجے

ہاتھ اوروں کے خرابوں میں نہ ڈالا کیجے
اپنے ملبے میں دبے شعر نکالا کیجیے
میری مانیں تو پرندوں کی خوشی کی خاطر
روگ پیڑوں کی محبت کا بھی پالا کیجے
لفظ مضمون سے خوش ہوں تو دعا دیتے ہیں
اپنے اشعار کو مصرعوں پہ نہ ٹالا کیجے
خوش دلی شرط نہیں ملنے ملانے کے لیے
دل نہ چاہے بھی تو کچھ وقت نکالا کیجے
خود کو محفوظ سمجھیے مرے دل میں لیکن
اپنے چوگرد دعاوں کا بھی ہالہ کیجے
لوٹیے عشق میں آرام سے انگاروں پر
کام کوئی تو زمانے سے نرالا کیجے
کیجیےآپ بھی تعریف کے قابل خود کو
بوجھ ہم پر ہی ستائش کا نہ ڈالا کیجے
بیٹھیے آ کے مرے دل کی گھنی چھاوں میں
دھوپ کے پیڑ تلے رنگ نہ کالا کیجے
میں نظر رکھتا ہوں اطراف کی تاریکی پر
آپ چپکے سے مرے دل میں اجالا کیجے
شہرِدل میں نئے عشاق کو موقع دے کر
اپنے ناکردہ گناہوں کا ازالہ کیجے
آپ کے منہ میں اگر ہو مری تعریف کبیر
اپنے ہونٹوں پہ کوئی قفل نہ ڈالا کیجے

Related posts

Leave a Comment