کوکی گل ۔۔۔ یہ زخمی دل ستانے لگ گیا ہے

یہ زخمی دل ستانے لگ گیا ہے
مزہ جینے کا آنے لگ گیا ہے

گھڑی پل کو رکو تم، اے بہارو!
کوئی کانٹے بچھانے لگ گیا ہے

کوئی تو ہنس رہا ہے آج لیکن
کوئی آنسو بہانے لگ گیا ہے

قدم رکھے چمن میں، جب سے گل نے
گلوں کو ہوش آنے لگ گیا ہے

شجر جو آندھیوں سے ڈر گیا تھا
وہ پاؤں پھر جمانے لگ گیا ہے

زمانہ چین سے کب بیٹھتا ہے
مجھے پھر سے رلانے لگ گیا ہے

خدا کا شکر کہ تو ہنس رہا ہے
ترا غصہ ٹھکانے لگ گیا ہے

تری یادوں کا موسم آ گیا گل!
یہ آنگن چمچمانے لگ گیا ہے

Related posts

Leave a Comment