ازہر ندیم ۔۔۔ اُداسی بھی معطر ہے

اداسی بھی معطر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوائے دل!
متاعِ جاں!
تمہاری داستاں میں کرب ہے خوشبو کے موسم کا
کہ جب بھی پھول کھلتے ہیں
زمیں پر ناتمامی کا عجب دکھ پھیل جاتا ہے
یہاں رنگوں کے پیراہن سدا مغموم رہتے ہیں
تماشائی فروزاں حسن کے باطن کے جلووں سے
خود اپنی بدنصیبی کے سبب محروم رہتے ہیں
ہوائے دل!
فضائے درد میں کوئی فسوں سا ہے
تمہاری بے بسی میں بھی جمالِ حزن بستا ہے
دیارِ خواب میں اترو
تو پھرمردہ گلابوں کی مہک آواز دیتی ہے
تمہاری سرخوشی بیتی رتوں میں خوبصورت تھی
تو یہ غم بھی منوّر ہے
ہوائے دل!
متاعِ جاں!
تمہارا دکھ
مقدس ہے ، مطّہر ہے
اَلم میں بھی نفاست ہے
اُداسی بھی معطر ہے!

Related posts

Leave a Comment