طارق بٹ ۔۔۔ تروینی

تروینی

اپنے گھر  میں ہوں
اپنی چہکاروں میں
اپنے بچوں پاس

کیا سے کیا نقشِ عرصہ گزراں
چھب دکھاتا ہے پردہ دل پر
موند کرتو بھی دیکھ، آنکھوں کو

کیا سے کیا عکس ہیں نہاں اس میں
پوچھ مت آئنہ صفت دل کی
عمرو عیار کی ہے یہ زنبیل

تیر و تلوار سہی، وار ترے لہجے کا
کاٹ میں کم نہیں کچھ سادہ بیانی اپنی
چار آئینہ تو ملبوس نہیں تیرا بھی

ٹوٹ کر خود پہ پیار آیا تھا
کرچیاں اپنی چن رہا ہوں میں
قہر ہے خود پہ آئنہ ہونا

تیز،  نوکیلی ہیں سب کانچ کے ٹکڑوں جیسی
دھیان سے چھونا اِنہیں آنکھوں سے، پڑھتے ہوئے تم
میں نے لکھی ہیں وہی باتیں جو تم نے کی تھیں

گذرنا ہو جو اِدھر سے تو ملنے آؤ کبھی
کباب سینکنے ہیں کچھ پرانی یادوں کے
تمھارے سینے، ذرا سی تو آنچ ہو گی ابھی

Related posts

Leave a Comment