خالد حسن ۔۔۔۔ فقیر منش مصور صادقین، بیس سال بعد (26 ستمبر 2007)

صادقین کی موت کو 20 سال ہوگئے۔ وہ اگر زندہ ہوتے تو اس وقت 77 برس کے ہوتے۔ جب 1987ء میں ان کا انتقال ہوا تو لوگوں کو ان کی موت سے زیادہ اس بات پر تعجب ہوا تھا کہ آخر وہ اتنا عرصہ زندہ کیسے رہ لیے۔انھوں نے اپنی زندگی کو بھی اسی شدت، اسی جوش سے گزارا تھا جس شدت اور جوش و جذبے سے وہ مصوری اور شاعری کیا کرتے تھے۔

صادقین نے اپنی شمعِ زندگی کو دونوں سروں سے جلایا تھا، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ شمع کا کوئی تیسرا سرا بھی ہوتا تو وہ اس کو بھی جلانے سے دریغ نہ کرتے!

مجھے لاہور میں صادقین کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ لاہور وہ شہر تھا جس سے انھیں عشق تھا، اور جسے وہ سوائے پیرس کے تمام شہروں پر ترجیح دیتے تھے۔

وہ اکثر اپنے تحریروں کے آخر میں ’فقیر‘ لکھا کرتے تھے، اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ واقعی فقیر منش تھے۔ لاکھوں کمائے اور لاکھوں اڑائے۔ انھوں نے اپنی تخلیقات کا بیشتر حصہ دوستوں میں بانٹ دیا، حتیٰ کہ وہ بعض اوقات انھیں اپنا کوئی شاہ کار کسی اجنبی تک کو سونپ دینے میں کوئی عار نہ ہوتا تھا۔ 

ایک بار لاہور میں صادقین کےفن پاروں کی نمائش ہوئی، جس کے دوران لاہور کی کچھ متمول خواتین نے چند تصاویر خریدنے میں دل چسپی ظاہر کی۔ صادقین اس بات سے بڑے محظوظ ہوئے اور کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تصاویر بیچنے کے لیے نہیں ہیں، اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ بیچنے کے لیے ہوتیں بھی تو آپ ان کی قیمت ادا نہ کر پاتیں!

مجھے یقین ہے کہ اگر وہ خواتین خواہش ظاہر کرتیں کہ انھیں ان میں سے کچھ یا ساری تصاویر چاہیئیں تو صادقین نے کہا ہوتا، لے جائیے، آپ ہی کی تو ہیں۔

صادقین سے دوستی کے سینکڑوں دعوے دار نکل آئیں گے۔ وہ چاہے اپنے سٹوڈیو میں ہوں، کسی کے گھر میں مقیم ہوں، ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہوں، یا کسی میوزیم میں تصاویر پر کام کر رہے ہوں، ان کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا، اور کسی کو اندر آنے کے لیے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ وہ کسی ملاقاتی کو کتنی توجہ دیتے، اس کا انحصار ان کے موڈ اور اس بات پر ہوتا تھا کہ ان کے پاس کتنا وقت ہے۔

ان کا زیادہ تر وقت تصاویر بناتے گزرتا تھا، لیکن اگر وہ کوئی تصویر نہیں بنا رہے ہوتے تو رباعیاں لکھ رہے ہوتے تھے، جو انھوں نے ہزاروں کی تعداد میں تخلیق کیں۔

صادقین ویسے تو حد درجہ منکسر المزاج تھے، لیکن اگر کوئی بڑا افسر اپنے عہدے کا رعب جھاڑنے کی کوشش کرتا تو صادقین اسے اس کی اوقات یاد دلانے میں تامل نہیں کیا کرتے تھے۔

نورالحسن جعفری صاحب جو سی ایس پی افسر اور شاعرہ ادا جعفری کے خاوند تھے، ایک بار منگلہ کے دورے پر گئے جہاں صادقین جہازی سائز کی دیواری تصاویر بنا رہے تھے۔ جعفری صاحب واپڈا میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ صادقین سے کہا گیا کہ وہ ان کی آمد پر تیار رہیں۔ لیکن جب جعفری صاحب تشریف لائے تو صادقین ادھر ادھر ہو گئے، اور اس وقت  تک نمودار نہیں ہوئے جب تک جعفری صاحب واپس نہیں چلے گئے۔

صادقین کے سب سے قریبی دوستوں میں ایک محمد اسحاق صاحب تھے۔ ان کا کراچی کی محمد علی سوسائٹی میں واقع گھر ایک طرح سے صادقین میوزیم کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں بنائی گئی تصاویر میں سے اب بیشتر حمید ہارون کےنجی ذخیرے کا حصہ ہیں۔

ایک بار صادقین بھارت گئے جہاں ان کی بڑی آؤبھگت کی گئی اور اندرا گاندھی نے ان سے ملاقات کی۔ بھارت سے واپسی پر حرمت اخبار کے جاوید صدیق نے صادقین سے پوچھا کہ کیا ان کی کوئی ادھوری خواہش ہے؟

صادقین نے اپنے پسندیدہ شاعر غالب کا مشہور شعر ’ہزاروں خواہشیں اپنی‘پڑھنے کے بعد کہا کہ میری کوئی ایسی خواہش نہیں ہے جو پوری نہ ہوئی ہو، جس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ایسی کسی چیز کی خواہش کی ہی نہیں جو میری دسترس سے باہر ہو۔ یہ الگ بات کہ ایسی کئی چیزیں تھیں جنھیں میں اپنی دسترس سے باہر سمجھتا تھا لیکن قسمت نے انھیں میری جھولی میں ڈال دیا!

انھوں نے مزید کہا کہ مجھے لوگوں کی طرف سے اپنے فن کی تحسین  کا کوئی شوق نہیں ہے۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اگر قدرت نے آپ کو کوئی نعمت ودیعت کی ہے، تو پھرقدرت خود ہی اس کی ترسیل و تشہیر کے مواقع ڈھونڈ لیتی ہے۔

صادقین نے اپنے فن کے بارے میں بتایا کہ انھوں نےمصور بننے کا انتخاب کیا اور اپنی تمام صلاحیتیں اس فن میں جھونک دیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے میلوں کے حساب سے خطاطی کی ہے اور ایکڑوں کے حساب سے مصوری کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صلاحیت خداداد ہوتی ہے اور اور جس شخص کو کوئی صلاحیت ملتی ہے، یہ اس کا فرض ہے کہ اس کو دوسروں کی خدمت کے لیے استعمال میں لائے۔ یہی عبادت کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔

اگست کے مہینے میں واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارت خانے میں صادقین کی تخلیقات کی نمائش پیش کی گئی، جس میں خطاطی کے کئی نمونے، تصاویر اور ڈرائنگز شامل تھیں۔ اس نمائش کااہتمام سان ڈیگو، کیلی فورنیا، میں واقع صادقین فاؤنڈیشن نے کیا تھا۔ یہ فاؤنڈیشن صادقین کے بھتیجے سلمان احمد نے قائم کی ہے جو صادقین کے محبوب بھائی سید کاظم احمد نقوی کے صاحب زادے ہیں۔ کاظم صاحب صادقین کے لیے ایسے ہی تھے جیسے وان گو کے لیے ان کا بھائی تھیو۔

سلمان نے بتایا کہ فاؤنڈیشن صادقین کے کام کی دریافت، تحفظ اور تشہیر کے لیے کام کر رہی ہے۔ تاہم ان کی زبانی یہ سن کر افسوس ہوا کہ کراچی کے فریر ہال میں واقع صادقین گیلری بند ہو گئی ہے۔

ایک بار صادقین سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں ان کی قرآنی خطاطی کی وجہ سے اسلامی مصور کہا جا سکتا ہے؟ انھوں نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ میرا اصل فن تصویریں بنانا ہے اور میری خطاطی میری مصوری کے زیرِ اثر ہے۔

جب صادقین بھارت گئے تو بھارتی حکومت نے انھیں ان کے آبائی شہر امروہہ لے جانے کا اہتمام کیا۔ پورا شہر ان کے استقبال کے لیے امڈ آیا اور انھیں ہاتھی پر بٹھا کر جلوس کی شکل میں لے جایا گیا۔ اُس وقت کی بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی کی طرف سے ان کے گھر کی چابیاں انھیں بطورِ تحفہ پیش کی گئیں۔

صادقین نے چابیاں واپس کر دیں اور کہا کہ’میں پاکستان میں رہتا ہوں جہاں مجھے بہت عزت ملی ہے۔ اور ویسے بھی گھر گھر کی مالکن کے لیے ہوتا ہے۔ میں اس گھر کو امروہہ کے باسیوں کی نذر کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ یہاں ایک کتب خانہ قائم کریں گے۔‘

صادقین سے سینکڑوں کہانیاں منسوب ہیں، لیکن ایک کہانی ایسی ہے جس میں ان کا کردار سمٹ کر آ گیا ہے۔ صحافی نصراللہ خان عزیز کے مطابق ایک بار صادقین کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ اس کے پاس اپنے خاندان کی کفالت کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اسے کوئی ہنر نہیں آتا، سوائے رکشا چلانے کے۔

صادقین نے اس شخص کو 15 ہزار روپے دے دیے کہ وہ اپنا رکشا خرید لے، لیکن شرط یہ رکھی کہ صادقین جب بھی چاہیں اور جہاں چاہیں، وہ انھیں اپنے رکشا میں لے جائے گا۔

کچھ عرصے تک یہ سلسلہ چلتا رہا، ایک دن صادقین نے اس سے کہا، ’اب تم آزاد ہو، آئندہ سے مجھے کہیں لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

(ترجمہ: زیف سید)

26 ستمبر 2007

Related posts

Leave a Comment