ستیہ پال آنند ۔۔۔۔ منصف ہاشمی کی نثری نظمیں

نثر اورنظم میں کیا فر ق ہے؟نور الغات میں "نثر” کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے۔ "وہ عبارت جو نظم نہ ہو”۔ یعنی لفظ "نثر” کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ہے، اسے "نظم” کے منفیانہ یا تنسیخی معانی سے ہی پہچانا جائے ۔۔۔نثر کے لغوی معنی ہیں۔:”پراگندہ” ، "بکھرا ہوا” ۔ اس کی صفات میں "خشک” ، "غیر شاعرانہ” وغیرہ الفاظ تقریباً ہر لغت میں پائے جاتے ہیں۔ نثر کو نظم سے قریب تر لانے کے لیے جو حربے استعمال کئے گئے ان میں جملوں کے آخری الفاظ کا مقفےٰ ہونا شرط اول تھی۔گویا نثر پر نظم کو مسلط کرنا شر ط اول تھی، نہ کہ نظم پر نثر کی فوقیت کو جتانا۔ در حقیقت نثر نگاری دوسرے درجے کی ادبی کاوش تھی جب کہ نظم گوئی سر فہرست تھی۔بیسویں صدی کے آخری تیس چالیس برسوں میں "نثری نظم” کو ادبی جریدوں میں جگہ ملنی شر وع ہوئی، لیکن اردو نے کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ "غزل گو ” یا "نظم گو ” کی جگہ” غزل نویس "یا "نظم نویس” بطور اصطلاح تسلیم کیا جائے ۔ "سخن” کا مطلب "بات” نہیں بلکہ "موزوں بات” تسلیم کیا گیا۔اس کے لوازمات میں آہنگ، لہجہ، (صوت)، زحافات کو صف اول میں جگہ دی گئی۔ منصف ہاشمی کو فیس بک اور رسائل کی وساطت سے میں گذشتہ دو دہائیوں سے پڑھ رہا ہوں۔ ارکان اورزحافات سے معرا ہونے کے باوجود ان کا آہنگ ایسے بیانیہ پر مبنی ہے جس میں نظم کی خصوصیات موجود ہیں۔ ترصیع، تجنیس، سجع ، آہنگ، اور سب سے بڑھ کر امیجری شعریات کے تقاظوں کو پورا کرتی ہیں۔ مترنم نہ ہونے کے باوجود ان کا بیانیہ شاعرانہ غنائت کا حامل ہے۔ان کی نظمیں مضمون نگاری کے حوالے سے خیال بندی اور معاملہ بندی کی شرائط پر بھی پورا اترتی ہیں. موضوعات کے حوالے سے ان کی نظموں میں مجھے شروع جوانی کی ملائمت اور عمر کی پختگی سے حاصل شدہ زاویہ دار خمیدگی کا ایک انوکھا امتزاج نظر آیا جو بہت کم شعرا کے ہاں ملتا ہے۔ ان میں ایک طرف توجہاں( شخصی کم اور غیر شخصی زیادہ) تجربات اور انسانی رشتوں کے سلسلۂ امکانات کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے ایک معصوم زاویۂ نگاہ موجود ہے، وہاں کچھ ایسے عینی خصائص بھی ہیں جو جذبات سے کچھ آگے بڑھ کر ان کو دانش و فہم کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کوئی بھی تخلیق ( اور خصوصی طور پر نظم ) موضوع اور مضمون کے انتخاب کے علاوہ شاعر کی زباندانی یا لسانی اہلیت کی ایک معتبر گواہ ہوتی ہے۔ زبان خود اپنی طرف قاری کی توجہ مبذول کروا لیتی ہے۔ یعنی جس موثر طریقِ کار سے زبان کا رکھ رکھائو خارج کے تناظر میں نہیں، بلکہ خود اپنے آپ میں قاری کے دھیان کو سمو کر ، اسے آگے پڑھنے پر مجبور کر دیتاہے، وہ طریق کا منصف ہاشمی بآسانی بروئے کار لاتے ہیں اور اس طرح قاری کو اپنی تحریر کی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔

14Shafiq Asif, Fazal Ahmad Khusrau and 12 others9 CommentsLikeCommentShare

Related posts

Leave a Comment