ڈاکٹر غلام شبیر رانا ۔۔۔ ملا وجہی : دکن کا یگانۂ روزگار ادیب

دکن ( جنوبی ہند ) سے تعلق رکھنے والا اُردو ، فارسی ،عربی اور دکنی زبان کا یگانہ ٔ روزگار تخلیق کار ملا وجہی ( اسداﷲ ) اپنے عہد کا پُرعزم تخلیق کار تھا۔ اُس کے آبا و اجداد کا تعلق تو خراسان سے تھا مگر وجہی نے دکن میں جنم لیا ۔ اس نے دکنی اور فارسی زبان میں اپنی خدادا صلاحیتوں کا لو ہا منوایا اور دکنی زبان کے ادب میں وہی مقام حاصل کیا جو اُردو زبان کے کلاسیکی ادب میں مرزا اسداﷲ خان غالبؔ کو نصیب ہوا ۔ ملا وجہی نے اپنی شاعری میں جن اصناف پر توجہ دی ان میں غزل ،نظم اور مرثیہ شامل ہیں ۔ ملا وجہی نے دکنی زبان کے قدیم شعرا فیروزؔ اور محمودؔکاہمیشہ بہت احترام کیا ۔گمان ہے کہ ملا وجہی نے دکنی زبان کے ان عدیم النظیر اُستاد شعرا سے اکتساب فیض کیا ہو گا یا اُن کا زمانہ دیکھا ہو گا۔ دکن کا یہ عظیم تخلیق کار قطب شاہی دور کے چو تھے حاکم ابراہیم قطب شاہ کے عرصہ ٔ اقتدار ( 1550-1580) میں گو ل کنڈہ میں پیدا ہوا ۔اس کی صحیح تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات سے متعلق کوائف ابلق ِایام کے سُموں کی گرد میں اوجھل ہو گئے ہیں ۔ عہدِ نا پرساں میں ملا وجہی کو کچھ عرصہ پریشاں حالی ،درماندگی اور معاشی مشکلات نے گھیر لیا تھا۔ اس کے بعد محمد قطب شاہ نے ملا وجہی کو شاہی دربار میں طلب کیا اور اسے ’ ملک الشعرا ‘‘ کے مقام عطاکیا ۔اسی دور میں ملاوجہی کی مقبولیت اور شہرت میں اضافہ ہوا اور وہ دکن میں اوج کمال تک جا پہنچا۔ ادبیات گو ل کنڈہ کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گو ل کنڈہ کی پہلی مثنوی ’’ قطب مشتری ‘‘ ملا وجہی کی تصنیف ہے ۔ملا وجہی کی زود نویسی کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ اُس نے اپنی یہ طبع زادمثنوی ( قطب مشتری ) محض بارہ ( 12) دنوں میں پایہ تکمیل تک پہنچائی ۔ اپنی مثنوی قطب مشتری میں ملا وجہی نے قلی قطب شاہ اور کی محبوبہ مشتری کے عشق کی کہانی کو اشعار کے قالب میں ڈھالاہے اور اسے دکن کے کلاسیکی ادب کی لازوال نشانی بنا دیاہے ۔ حسن و عشق کی یہ داستان پڑھ کر قاری شیریں و فرہاد ،لیلیٰ و مجنوں اور سسی وپنوں کے قصوں میں کھو جاتا ہے ۔ ملا وجہی نے اپنی تصنیف ’’ قطب مشتری ‘‘ میں تخلیق ِ ادب کے معائر اور تصنیف و تالیف کے قواعد کو زیر بحث لا کر ایسی مثال قائم کی ہے جس کی بنا پر یہ بات بلاخوفِ ترددید کہی جا سکتی ہے کہ یہی وہ زیرک تخلیق کار ہے جس نے ادبی نثر اور شاعری کو ایسے نقوش سے آشنا کیا جو آنے والی نسلوں کے لیے لائق تقلید بن گئے ۔ادبی تنقید کے جو دُھندلے نقوش ملا وجہی کی تصنیف ’’ قطب مشتری ‘‘ میں موجود ہیں وہ اس حقیقت کے غماز ہیں یہ ملا وجہی ہی تھا جس نے سب سے پہلے تخلیقات کے محاسن و معائب کے پر کھنے پر توجہ دی ۔اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دکنی ادبیات میں نقد ونظر پر سب سے پہلے ملاوجہی ہی نے توجہ دی ۔سال 1635ء میں عبداﷲ قطب شاہ نے ملا وجہی کوایک تمثیلی داستان لکھنے پر مائل کیا ۔ ملا وجہی کی تصنیف ’’ سب رس ‘‘کی صورت میں یہ قصہ حُسن و دِل کی صورت میں منصۂ شہود پر آیا ۔ ناول او ر انشائیہ کا آہنگ لیے سب رس کی کہانی بھی عجیب ہے جو دلوں کے بے حد قریب ہے ۔ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے ملا وجہی نے اپنے مشاہدات اور تجربات کا اس قدرموثر انداز میں پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے کہ قاری اسلوب کے سحر میں کھو جاتاہے ۔ تخلیقی تجربات اور اس میں دِل ایک شہزادے کے رُوپ میں جلوہ گر ہے جب کہ حُسن ایک حسین و جمیل شہزادی کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ معاشرتی زندگی کے ماد ی مسائل کی عکاس مقبول تصانیف ’’ سب رس ‘‘ اور ’’ قطب مشتری ‘‘ کی اعجاز سے جریدہ ٔ عالم پر ملا وجہی کا نام ثبت ہو گیاہے ۔دکنی ادب کے ان شاہکاروں نے دکنی ادبیات کو عالمی ادب میں معزز و مفتخر کر دیاہے ۔ملا وجہی کی زندگی کبھی سوز و سازِ رومی کی مظہر ہے تو کبھی یہ پیچ وتاب رازی کی مثال بن جاتی ہے ۔کبھی و ہ فقیہہ مصلحت بیں کے مانند تصوف کی باتیں کرتاہے تو کبھی وہ رِندوں کی محفل کا احوال بیان کرتا دکھائی دیتاہے ۔کہیں وہ ترکِ دنیا اور گوشہ نشینی پرمائل ہے تو کہیں حُسن و جمال کی دِل کشی کا گھائل دکھائی دیتاہے ۔اس کی شخصیت کا دھنک رنگ منظر نامہ دیکھ کریہ گمان گزرتاہے کہ اس تخلیق کار کے اسلوب میں اپنے عہد کی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کے سب انداز سمٹ آئے ہیں ۔ ملا وجہی کو بر صغیر کے طو ل و عرض میں بولی جانے والی زبانوں پر خلاقانہ دسترس حاصل تھی۔وہ اہلِ ہند کے محاورات ،گوالیار کے فہمی اور گنی کے لب و لہجے سے آشنا تھا ۔دکن کے باشندوں ،ہندی بولنے والوں اور ہندوی کے لہجے میں وہ امتیاز کر نے کی صلا حیت سے متتمع تھا۔ملا وجہی کی تحریروں میں مراٹھی ،تلگو اور کنٹرا زبانوں کے الفاظ کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اُسے متعددمقامی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اس نے اپنے اسلوب میں مقامی روایات ،ہندو دیو مالا کی حکایات اور قصوں سے وابستہ روایا ت کو جگہ دی ہے ۔شعر و نغمے سے اس کی دلچسپی کااندازہ اس امر سے لگایا جا سکتاہے کہ اُس نے قطب مشتری میں نغموں کے سریلے اور رسیلے بو ل شامل کر کے اس کے معنوی حسن میں بے پناہ اضافہ کر دیاہے ۔ ملا وجہی نے طویل عمر پائی او راِس نے قطب شاہی خاندان کے درج ذیل حکمر انوں کے عہد میں فکر و خیال کی شمع فروزاں رکھی :
۱۔ ابراہیم قلی قطب شاہ ( 1550-1580)
۲۔محمد قلی قطب شاہ (1580-1612 )
۳۔سلطان محمد قطب شاہ ( 1612-1626)
۴۔عبداﷲ قطب شاہ (1626-1672)

ملا وجہی کی تخلیقات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اُس نے کچھ مزید تخلص بھی اپنائے جن میں وجیہہ ، وجیہیا، وجیہی ،وجہیا،وجہی،وجہ شامل ہیں۔

ملا وجہی سلسلہ چشتیہ کے ایک صوفی بزرگ حضرت شاہ علی متقی سے بہت عقیدت تھی ۔عقیدت کے اسی تعلق کی بنا پر ملا وجہی نے صوفی بزرگ حضرت شاہ علی متقی کی بیعت کی او راُن کے مرید بن گئے ۔ملا وجہی نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر ر گِ سنگ میں اُترنے کی سعی کی اُس کی فکر و فلسفہ کے ارفع معائر اس کی شاعری ،نثر میں جلوہ گر ہیں۔ قدیم دکنی زبان کی شاعری اور نثر میں ملا وجہی کے اسلوب نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ۔اس کے مسحور کن اسلوب کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ معاصرین نے اس عبقری دانش ور اور ادیب کی تحریروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس کے فکر پرور اور بصیرت افروز اسلوب کو سراہا۔ملا وجہی نے اپنی خداد صلاحیتوں کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا۔روح اور قلب کی اتھا ہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے مزین ملا وجہی کا اسلوب جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کا لو ہا منوا لیتاہے ۔ملا وجہی کے معاصرین میں سے جن ادیبوں نے اس کے ابد آشنا اسلوب کی تعریف کی ان میں طبعی اور شاہ افضل قادری شامل ہیں ۔طبعی نے اپنی مشہور مثنوی ’’ بہرام و گُل اندام ‘‘میں ملا وجہی کی تخلیقی فعالیت کی تحسین کی ہے ۔شاہ افضل قادری نے عبداﷲ قطب شاہ کا جو قصیدہ لکھا اس میں بادشاہ کی مدح کے ساتھ ساتھ ملاوجہی کے بھی اچھے الفاظ میں ذکر کیاہے ۔شاہ افضل قادری کو ملا وجہی سے بہت عقیدت تھی ۔اُس نے ملا وجہی کی تعریف میں جو الفاظ لکھے ہیں وہ درج ذیل ہیں :
۱۔ گیانی : عالم و فاضل ،۲۔ گُن بھر : عمدہ صلاحیتوں سے معمور ،۳۔عاقل : عقل مند ،۴۔کامل : اپنے فن میں یکتا

حالاتِ زندگی : ملا وجہی کا خاندان سال 973 ہجری میں تر کستا ن سے نقل مکانی کر کے گول کنڈہ پہنچا۔ ملا وجہی کی پیدائش سال 974ہجری میں گولکنڈہ میں ہوئی ۔ ملا وجہی نے فیروز بیدری سے اکتساب ِ فیض کیا ۔ اپنی مثنوی ’’ قطب مشتری ‘‘میں ملا وجہی نے حضرت علیؑ کی شجاعت،اوصاف ِ حمیدہ ،تلوار ذوالفقارکا کئی مقامات پر ذکر کیاہے ۔اس کی شاعری کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ وہ شیعہ مذہب کا پیروکار تھا ۔ملا وجہی کی زندگی میں کئی نشیب و فراز ملتے ہیں اس نے اپنے عہد میں رونما ہونے والی تہذیبی ،ثقافتی ،تمدنی اور معاشرتی اقدار کے تغیر و تبدل سے گہرے اثرات قبول کیے ۔

ملا وجہی کی تصانیف
۱۔ سب رس : یہ کتاب بادشاہ کی فرمائش پر لکھی گئی اپنی اس تصنیف میں ملا وجہی نے عقل ،دِل ،عشق اور حُسن سے متعلق باتوں کوزیبِ قرطاس کیاہے ۔حُسن اورعشق کے باہمی تعلق پرمبنی اِس قصے کے ماخذکے بارے میں وجہی نے کچھ نہیں کہا ۔ سب رس کا دیباچہ پڑھنے کے بعدیہ تاثر ملتاہے کہ حُسن و دِل کایہ قصہ ملا وجہی کی اختراع ہے جب کہ تحقیقی حوالوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ کہانی سب سے پہلے مثنوی ’’ دستور عشاق ‘‘کے مصنف محمد یحیٰی اِبن سیبک فتاحیؔ نیشاپوری کی تخلیق ہے ۔ان قصوں کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعدیہ نتیجہ سامنے آتاہے کہ ملا وجہی نے اپنی تصنیف ’’ سب رس ‘‘ کے تمام اہم مندرجات محمد یحیٰی اِبن سیبک فتاحیؔ نیشاپوری کی نثری تخلیق ’’حُسن و دِل ‘‘ سے اخذ کیے ہیں مگر اِن کا کہیں حوالہ تک نہیں دیا۔ملا وجہی کے اسلوب کا انوکھا پہلو یہ ہے کہ اس نے اپنی کتاب سب رس میں ایک ناصح کا رُوپ دھا ر لیا ہے۔ ملاوجہی کی تصنیف ’’ سب رس ‘‘کی مسجع اور مقفٰی نثراپنی نوعیت کے اعتبار سے محمد یحیٰی اِبن سیبک فتاحیؔ نیشاپوری کی نثری تخلیق ’’حُسن و دِل ‘‘ سے گہری مماثلت رکھتی ہے ۔ فتاحی کی رزمیہ مثنوی ’’ دستور عشاق ‘‘ ملا وجہی کی نظر سے نہیں گزری ۔ ملا وجہی نے واضح کر دیا ہے کہ عقل اگر عشق سے تصادم کی راہ اپنائے تو یہ اُس کی دیوانگی کی دلیل ہے ۔
۲۔ قطب مشتری : یہ کتاب سال 1609ء / 1018 ہجری میں منظر عام پر آئی ۔اس کتاب میں ملا وجہی نے سلطان قلی قطب شاہ کی داستانِ محبت کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے ۔اس کے علاوہ اس میں شاعری کے اصول و ضوابط بھی بیان کیے ہیں۔ملا وجہی نے اپنی تصنیف ’’ قطب مشتری ‘‘ میں ایک باب ’’ در شرح شعر گوید ‘‘ شامل کیا ہے ۔اس باب میں اکہتر (71) اشعار ایسے ہیں جن میں اُس نے اپنے نظریہ فن کی وضاحت کی ہے ۔ملا وجہی ایک قادر الکلام شاعر اور بے باک نقادتھا۔ذیل میں اس کے کچھ اشعار درج کیے جاتے ہیں جن میں اس نے شاعری کے لیے کچھ رہنما اصول پیش کیے ہیں :
جسے بات کے ربط کا نام نہیں
اُسے شعر کہنے سے کچھ کام نہیں
جو بے ربط بولے تو بیتاں پچّیس
بھلاہے جو یک بیت بولے سلیس
سلاست نہیں جس کیری بات میں
پڑیا جائے کیوں جز لے کر ہات میں
جسے بات کے ربط کا فام نیں
اُسے شعر کہنے سوں کُچ کام نیں
نکو کر تُو لئی بولنے کا ہوس
اگر خوب بولے تو یک بیت بس
ہُنر ہے تو کُچ نازکی برت یاں
کہ موٹاں نہیں باندتے رنگ کیاں
وو کُچ شعر کے فن میں مشکل اچھے
کہ لفظ ہور معنی یو سب مِل اچھے
اُسی شعر کوں لفظ میں لیائیں تُوں
کہ لیایا ہے اُستاد جِس لفظ کُوں
اگر نام ہے شعر کا تُج کوں چَھند
چُنے لفظ لیا ہور معنی بلند
رکھیا ایک معنی اگر زور ہے
ولے بھی مزا بات کا ہور ہے
اگر خوب محبوب جیوں سو رہے
سنوارے تو نُور ُ، علیٰ نُور ہے
ہُنر مشکل اُس شعر میں یوچ ہے
کہ تھوڑے اچھیں حرف معنی سو لے
یو سب شعر کہتے یو سب شعر نئیں
کہ بولاں کدھر اور معنی کہیں
جو کرتا یکس کا ہنر دیک کر
ہنر وند اُسے نیں کِتے ہے ہنر
نوا دِل تے لیانا ہے مشکل کِنا
کہ آسان ہے دیک کر بولنا
ہُنر وند اُس کوں کھیا جائے گا
جو کوئی اپنے دِل تے نوا لیائے گا
فرق ہے اوّ ل ہور آخیر میں
تفاوت اہے نِیر ہور شِیر میں
دیوانا ہوں میں اُس رنگی بات کا
کہ ہر دِل میں جیو ہو کر ے ٹھار آ
کہاں بات وو چنچل ہو ر چُلبلی
کہ ہر دِل کوں نہواں سوں کرے گُد گُلی
مری بات سُن بات اِس دھات بول
کہ جیو کوں خوشی ہور دِل کوں کلول
سخن گو وہی جِس کی گُفتار تھے
اُچھل کر پڑے آدمی ٹھا ر تھے
شعر بولنا گرچہ اپروپ ہے
ولے فامنا کہنے تے خوب ہے

ملا وجہی نے تقلید اور نقالی کو تخلیق ادب کے لیے انتہائی مضر قرار دیا۔اس نے سدا جدت اور تنوع پر اصرا ر کیا:
تو ادلی تی لیا نا ہے مشکل کنا
کہ آسان ہے دیک کر بولنا
دیوانہ ہوں میں اُس رنگی بات کا
کہ ہر دِل میں جیو ہو کر ٹھار آ
یو نرمول ہے بات اس مول میں
ہر یک بول ہے وحی یو بول میں

۳۔تاج الحقائق : نثر میں لکھی گیا مذہب اور تصوف کے موضوع پر یہ رسالہ اس عہدمیں فکر ی رہنمائی کا وسیلہ ثابت ہوا۔ملا وجہی نے اس کتاب میں مذہب سے وابستہ حقائق کی تشریح اس اندازمیں کی ہے کہ قارئین اس کے مطالعہ سے اپنی دنیا اور آخرت سنوار سکتے ہیں ۔

۴۔ فارسی دیوان :فارسی شاعری میں ملا وجہی کے اشہب ِ قلم کی جولانیاں قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہیں ۔اپنے فارسی دیوان میں ملا وجہی نے اپنے دل پر اُترنے والے تمام موسموں کااحوال بیان کیاہے ۔
ملاوجہی کے اسلوب میں ایسے محاورات بھی شامل ہیں جو آج بھی مستعمل ہیں ۔ ذیل میں اس کی چندمثالیں پیش کی جا رہی ہیں :
چائیں مائیں کھیلنا، چیز کرنا، خالہ کا گھر ، دودھ کا جلیا چھاچھ پھونک پیتا،شان نہ گُمان ، دیکھا دیکھی ، سونا ہور سگند،شرم حضوری ، کہاں گنگا تیلی اور کہاں راجہ بھوج ،گھر کا بھیدی لنکاڈھائے ،
قطب شاہی دور ( 1518-1687)میں اس نے قلی قطب شاہ کی داستان ِ محبت کو اشعار کے قالب میں ڈھالا اورایک طویل مثنوی ’’قطب مشتری ‘‘ پیش کی ۔دکنی نثر میں ملا وجہی کی کتاب ’’سب رس ‘‘ کو دکنی ادب کے ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔قدیم دکنی زبان کو ہندوستانی زبان کی ایک کو نپل خیال کیا جاتا ہے جس نے سر زمین د کن میں نمو پائی ۔دکن میں مقیم مسلمان باشندوں نے اس زبان کو پروان چڑھانے میں گہری دلچسپی لی ۔اردو زبان کے ماننددکنی زبان نے تحریر کے لیے فارسی نستعلیق رسم الخط کا انتخاب کیا ۔تاریخ ادب کے مطالعہ سے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ یہی وہ خطہ ہے جہاں سے قدیم دکنی شاعر ولی محمد ولیؔ دکنی (1667-1707) نے ریختہ کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنا کر ایسا رنگ و آ ہنگ عطا کیا کہ ادب میں تخلیقی فعالیت کومقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لسانیات کے ان ہمہ گیر تجربات نے پورے شمالی ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ دہلی میں بھی شعر و سخن سے وابستہ مثبت شعور و آ گہی سے متتمع تخلیق کاروں کی محفلوں میں ولی دکنی کی تخلیقی کامرانیوں کی بازگشت سنائی دینے لگی۔جب ولیؔ دکنی کی شاعری کی ہر سُو دھوم مچ گئی تو اس کے اسلوب کی تقلید پر توجہ دی گئی ۔قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی زبانوں کے باہم امتزاج اور اس کے نتیجے میں رو نما ہونے والے تغیر و تبدل کا وسیع سلسلہ پیہم جاری رہا اور اس عہد میں بر صغیر کی ہر زبان میں دکنی زبان کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں ۔اسی بنا پر یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ہندوستان کی تمام ادبی زبانیں ان لسانی تجربات سے مستفید ہوئیں اور دکنی زبان سے خوشہ چینی کرتی رہیں ۔ہندوستانی زبانوں کے ادب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب زبانوں کے علم و ادب کا قصر عالی شان دکنی زبان سے مستعار لیے گئے ذخیرۂ الفاظ کی اساس پر استوارہے ۔فکری اور فنی اعتبار سے ہندوستانی زبانیں دکنی زبان کی باج گزار ہیں اور دکن کے مشاہیرِ علم و ادب کے بار ِ احسان سے بر صغیر کے باشندوں کی گردنیں ہمیشہ خم رہیں گی۔بر صغیر کی زبانوں بالخصوص دکنی زبان پر ممتاز مستشرق گریرسن (George Abraham Grierson) نے جو دادِ تحقیق دی ہے اُسے پوری دنیا میں سرا ہا گیا ۔ دکنی زبان کی لسانی اہمیت کے بارے میں گریرسن (1851-1941)نے لکھا ہے :
"The Musalman armies carried vernacular Hindostani to the southbefore it had been standardised,and it then contained many idioms which are now excluded from literary prose.Some of these have survived in Deccan.”)1(
آریائی زبانوں سے میل جول اوراشتراک سے جنوبی ہند میں دکنی زبان نے نمو پائی۔دکنی زبان کاامتیازی وصف یہ ہے کہ اس زبان میں فارسی الفاظ کی فراوانی نہیں ہے ۔ مغربی ہندی زبان کی شاخوں کے بر عکس اسم یا ضمیر کے بعد اور فعل ماضی سے پہلے حرف (نے ) کا استعمال نہیں ہوتا۔دکنی زبان میں ’’مجھ کو ‘‘ کے بجائے ’’میرے کو ‘‘ مستعمل ہے ۔دکنی زبان کے مولد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں تلگو نے پانچ سو برس تک رنگ جمایا اس عرصے میں مقامی زبانوں میں لسانی تجربات ،تغیرات اور ارتقا کا سلسلہ جاری رہا اور دکنی زبان نے بھی اس سے گہرے اثرات قبول کیے ۔اس کا اندازہ دکنی زبان میں رونما ہونے والے نحوی تغیر و تبدل سے لگایا جا سکتا ہے۔لسانی عمل کے عمیق مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ارادی ،غیر ارادی ،مرضی یا غیر مرضی سے وقوع پذیر ہونے والے تغیرات اس خطے میں صدیوں سے مسلط جبر کی فضا سے انحراف کی ایک صور ت بن رہے تھے۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر نظر رکھنے والے محققین اور مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دکن میں بہمنی دور میں حکمرانوں کی سر پرستی کے نتیجے میں دکنی زبان کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ جاری رہا ۔عوام کی دلچسپی اور حکمرانوں کی حوصلہ افزائی نے یہاں کے باشندوں کے فکر و نظر کو مہمیز کیا اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں دکنی زبان نئے آفاق تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔دکنی زبان پر عربی اور فارسی زبان کے اثرات نمایاں ہیں لیکن اس کے باوجود دکنی زبان کی شکل و صورت ہندوستانی زبان سے قدرے مختلف ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ دکنی زبان پر حیدر آباد ،بنگلور ،اورنگ آباد ،کرنول،نیلور اور بنگلور میں مقیم مراٹھی ،تلگو اورکاندا جیسی مقامی بولیاں بولنے والے باشندوں کے گہرے اثرات ہیں۔اس قسم کی علاقائی زبانیں مہاراشٹر ،تلنگانہ ،آندھرا پردیش،کرناٹکااورتامل ناڈو میں طویل عرصے سے مستعمل ہیں۔ اُردو زبان کی قدیم ترین شکلوں میں گوجری ،ہندوی اور دکھنی قابل ذکر ہیں ۔ ان زبانوں کے مشرقی پنجابی اور ہر یانی کے ساتھ کھڑی بولی کی نسبت زیادہ گہرا تعلق ہے ۔دکن ہی وہ خطہ ہے جہاں سے تخلیق کاروں نے افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب روشنی کے فقید المثال سفر کا آغاز کیا تھا ۔ ادبیات ،فنون لطیفہ اور لسانیات سے دلچسپی رکھنے والے ذوقِ سلیم سے متمتع قارئین ادب کا خیال ہے کہ جدید دور کی معیاری ارد وکے سوتے بھی سر زمینِ دکن ہی سے پھوٹے تھے ۔

دکن میں ایک نئی زبان کے ارتقا کے حوالے سے اماریش دتا (Amaresh Datta)نے انسا ئیکلو پیڈیا ہندوستانی لسانیات میں لکھا ہے:
,,The fusion of the spoken language of the North (imposed upon the south by its Muslim conquerers )and the southern languages resulted gradually in the evolution of a somewhat peculiar form which can be known as Dakkani Urdu.The Bahmani Kingdom,the first independent Muslim State in the South( 1347- 1526) despite its long rule did not contribute much to Dakkani literature as such ,but its adoption of thi new languageas its court,s language in preference to Persian ,helped the process of the gradual growth and development as the dominanat linguistic force of the areaand contained to draw strength and sustenance from cultures of both the North and the South.(2)

فارسی بولنے والے مسلمان فاتحین اور ان کے لشکر میں شامل فوجی اپنی زبان دکن لے کر پہنچے ۔ جنوبی ہند میں جس زبان کو دکھنی کہا جاتا تھا شمالی ہند میں اس نئی زبان کے لیے کوئی موزوں نام تجویز نہیں ہوا تھا۔انسانی معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے ابنائے جنس کے ساتھ باہمی معاونت اور تقابل کے نتیجے میں دکن میں نمو پانے والی یہ نئی زبان شمالی ہند میں شمالی ہند میں ریختہ ،اُردو ،اُردوئے معلّیٰ کے نام سے مقبول ہوئی۔ تاریخ ِ ادب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دکن کے تخلیق کاروں نے سب سے پہلے نثری تراجم کوپرورشِ لو ح و قلم کا وسیلہ بنایا ۔اس طرح تخلیقی فعا لیت میں بھی نثر کو اوّلیت کا اعزاز حاصل ہو ا اور دکن میں نظم کی تخلیق نثر کے بعد ہوئی ۔ماہرین لسانیات کا گمان یہ ہے کہ عروض کی پابندی اور قافیہ بندی کی نسبت دوسری زبان سے ترجمہ کرنا قدرے آسان ہے اس لیے دکن کے تخلیق کاروں نے سب سے پہلے نثری تراجم ہی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔یہ خواجہ بندہ نواز سید محمد حسینی گیسو دراز شہبازؔ تھے جنھیں دکنی کا پہلا شاعر قرار دیا جاتا ہے ۔ اس عہد کے مقبول فعال اور مستعد تخلیق کاروں کے فن پاروں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی ہند میں اِس زبان کو بالعمو م دکنی اور ہندی ہی کہاجاتا تھا ۔ ولی ؔ اورنگ آبادی نے دکھنی زبان کے لیے سب سے پہلے ریختہ کا نام استعمال کیا ۔

ملا اسداﷲ وجہی(وفات:1659)
سترہویں صدی عیسوی کے اوائل میں دکنی نظم اور نثر کے اس با کمال تخلیق کار نے ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں بہت اہم ہے ۔ اس نے چار بادشاہوں کا دور دیکھا جن میں ابرہیم قطب شاہ ،محمد قلی قطب شاہ ، محمدقطب شاہ اور سلطان عبداﷲ شامل ہیں ۔اس کی تصانیف ’قطب مشتری (1609) ‘ اور ’ سب رس (1634) ‘ دکنی ادب کے ارفع معیار کا نمونہ ہیں۔ قطب مشتری میں وجہی نے قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی داستان محبت کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے ۔ محمد قلی قطب شاہ نے دکن کی ایک ہندو خاتون بھاگیرتی کی آغوش میں تربیت حاصل کی ۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتاہے کہ محمدقلی قطب شا ہ ،جہاں دار شاہ اورر محمدشاہ رنگیلا کے مزاج میں یکسانیت تھی ۔بارہ حسین وجمیل پیاری دو شیزاؤں کے جھرمٹ میں مست رہنے والا یہ بادشاہ عیش و عشرت کا دلدادہ تھا۔اس بادشاہ نے اپنی بارہ پیاریوں ننھی ،سانولی ،کنولی ،پیاری،گوری ،چھبیلی، لالا،لالن ،موہن، محبوب،مشتری اور حیدر محل کے لیے الگ الگ محلات تعمیر کرائے ۔ ان بارہ پیاریوں کے علاوہ متعد د پاترائیں بھی تھیں جو بادشاہ کا دل بہلانے پر مامور تھیں۔ملا وجہی نے بادشاہ کی بارہ پیاریوں پر جو نظمیں لکھی ہیں وہ سراپا نگاری کی مثال ہیں۔ ملا وجہی کے اسلو ب میں دکنی کے قدیم انداز قابل توجہ ہیں وہ تکلم کے سلسلوں مین جس طرح الفاظ ادا کرتے تھے بالکل اُسی انداز میں اُنھیں تحریر بھی کرتے تھے ۔ذیل میں اس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
دکنی الفاظ اردو الفاظ
مستید مستعد
وضا وضع
خیریز خارج
ملما ملمع
اخل عقل
ملاذا ملاحظہ
صفے صفحے
وخت وقت
منا منع
نخش نقش

ملا وجہی نے قدیم دکنی لہجے کو پیش نظر ر کھتے ہوئے حسب ضرورت آمالہ اور حذفکو تصرف میں لانے کی سعی کی ہے :
دکنی الفاظ اردو الفاظ
کرڑ کروڑ
سیر سر
سوریج سورج
عطارید عطارد
تُج تُجھ،تُج ،توج
کُچ کچھ ،کوچ
بغر بغیر

ملا وجہی نے اپنی تحریروں میں ماضی مطلق بناتے وقت الف سے پہلے ی کو شامل کیاہے جیسے :
دکنی اردو
ملیا ملا
سُنیا سُنا
اپنی تحریروں میں ملا وجہی نے جمع بناتے وقت ’’ اں ‘‘ کا اضافہ کیا ہے جیسے :
واحد جمع
ہتی ( ہاتھی ) ہتیاں
بُڈھا (بُوڑھا ) بُڈھیاں

اپنے دِ ل پر اُترنے والے خزاں اور بہار کے سب موسموں کا احوال ملا وجہی نے اپنی شاعری میں بیان کیاہے ۔ روح اور قلب کی محفل سجان اس کا محبوب مشغلہ ہے وہ اپنے جذب دروں کی عکاسی کر کے قاری کو اپنے تجربے میں شامل کرتاہے ۔اس کی شاعری کے پس پردہ کارفرمالا شعوری محرکات اس کے اسلوب میں سمٹ آئے ہیں ۔وجہی کی شاعری کا نمونہ درج ذیل ہے :
تو ں اول توں آخر تو ں قادر ا ہے
تو مالک تون باطن توں ظاہرا ہے
طاقت نہیں دُوری کی اب تون بیگی آ مِل رے پیا
تج بن منج ے جینا بہوت ہوتا ہے مشکل رے پیا
کھانا برہ کیتی ہوں میں پانی انجھو پیتی ہوں میں
تج نے بچھڑ جیتی ہوں میں کیا سخت ہے دِل رے پیا
چھپی رات اجالا ہوا دیس کا
لگیا جگ کرن سیو پریس کا
شفق صبح کا نیں ہے آ سمان میں
کہ لالے کھلے ستبساستان میں
جو آیا جھلکتا سورج داٹ کر
اندھار ا جو تھا سو گیا نھاٹ کر
سورج یوں ہے رنگ آسمانی منے
کہ کھلیا کمل پھول پانی منے

ملا وجہی نے اپنے ادبی تخلیقی سفر کا آغاز فارسی شاعری سے کیا ۔ اس کے معاصرین میں غواصی ؔ کا نام قابل ِ ذکر ہے جو اپنے زمانے کا مقبول شاعر تھااورعبداﷲ قطب شاہ کے عہد میں ملک الشعرا تھا۔ اپنی تخلیقات میں اس شاعر نے غواصی ؔ اور غواص ؔ کے دو تخلص استعما ل کیے ۔ ملا وجہی اور غواصی ؔ کی معاصرانہ چشمک کے شواہد ملتے ہیں ۔ تاریخ ِ ادب کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ محمد قطب شاہ کے عہد حکومت میں یہ دونوں شاعر گردشِ ایام کی زد میں آ گئے اور پرانی مخاصمت کو بُھلا کر ایک وضع احتیاط کے تحت قریب آ گئے ۔ غواصی ؔ نے اپنے ایک قصیدے میں بدلتے ہوئے حالات کے تحت ملا وجہی کے ساتھ تعلقات کی نئی صورت کا ذکر کیاہے اور بادشاہ عبداﷲ قطب شاہ سے نہ صرف اپنے لیے بل کہ ملا وجہی کے لیے بھی مراعات کی استدعا کی ہے ۔ غواصی ؔ کے قصیدے سے چنداشعار درج ذیل ہیں :
اے جہاں بان اے جہاں گیر اے شہنشاہ ِ جہاں
جو ترنگ تیرا پون ہے ہور توں حندر رکاب
اس دکھن کے شاعراں میں تُج شہنشہ کے نزیک
ہے غواصی ؔ ہور وجیہی شاعرِ حاضر جواب
عارفاں ہیں سو کتے ہیں یوں کہ آج اس دور میں
شیر ہیں یو شعر کے فن میں بحقِ بو تراب
گر شغال آر یس شیراں کی کرے تو کیا ہوا
ہے شغال آخر شغال ہر گز نہ ہووے شیرِ غاب
کاچ ہر گز پاچ نہ ہووے جتا چمکائے بی
مشتری کی سم نہ آ ئے ہوئے جِتا روشن شہاب
جو جیواں راواں نہ اُٹھے چند اگر کھو گا جنم
چال ہنس کا چل نہ سکسی گر ٹینگا لے غراب
کچ کنے کی نیں ہے حاجت توں سمجتا ہے اپے
آبِ حیواں کا شرف ہور مایہ ٔ قدر ِ سراب
تُج نول شہ کے بزرگاں کے ہیں نا ریزے ہمیں
یوں نہ رک تُج دور میں ہمنا کوں دُبلے ہور بے آب
گرچہ بے سامان ہیں ہور مفلس یک بھوتیک ولے
ہے بچن ہر ایک ہمارا بے بدل دُرّ ِ خوش آب
اِس ضعیفی ہو ر پیری وقت پر اے دست گیر
مہربان ہو کُچ ہمن دونوں کی جمیعت کے باب
رات دِن تیری دعامیں ہور ثنا میں ہیں مدام
ہر دعا تھے ہے دعا اوّل ہمارا مستجاب
جِس وضع سوں توں رکھیا ہے اس وضع رہتے ہیں خوش
ہیں تیرے ذرے ہمیں توں سو ہمارا آفتاب
اے جو توں سرتاج ہے سار ے اولوالا لباب کا
شعر منج غوّاص کا ہے عین جوں لبّ ِ لباب
تُج دریا دِل شاہ عارف کی دعا سوں ختم میں
اِس قصیدے کوں کیا ہے واﷲ عالم بالصواب

اپنے اس قصیدے میں غواصی نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ ضعیفی ،پریشاں حالی اور رماندگی کے عالم میں دونوں معاصر شعرا نے پرانی رنجش ختم کر دی تھی اور ایک دوسرے کے خیر خواہ بن گئے تھے ۔ اپنے قصیدے میں غواصی ؔ نے ملا وجہی اور اپنی ضعیفی کا جس انداز میں ذکر کیاہے وہ انسانی ہمدردی کی عمدہ مثال ہے ۔ اس کے بعد حالات نے کروٹ لی اور ملا وجہی کو شاہی دربار تک رسائی حاصل ہو گئی ۔ملا وجہی نے بادشاہ عبداﷲ قطب شاہ اور اُس کی اہلیہ حیات بخشی بیگم کو اپنے ہمدمِ دیرینہ غواصی ؔ کی حالت ِ زار سے آگا ہ کیا اور یوں غواصی ؔ گردشِ ایام کو ٹال کر پھر سے دربار سے وابستہ ہو گیا اور ملک الشعرا کے منصب پر فائز ہو کر بیجاپور کی سفارت پر روانہ ہوا۔ اس دوران میں ملا وجہی نے رسوم ِ خانقہی کے زیرِ اثر عبادت ،ریاضت اور زہد و تقویٰ کی زندگی اختیار کر لی اور رفتہ رفتہ پس منظر میں چلا گیا۔ غواصی ؔ کی مثنویوں ’مینا ستونتی ‘، ’سیف الملوک و بدیع الجما ل ‘ ، ‘ اور ’طوطی نامہ ‘ کو دکنی ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ یہ مثنویاں فارسی زبان سے ماخوذ ہیں اور انھیں دکنی زبان میں منتقل کیا گیا ہے ۔ اس کی طویل مثنوی ’ طوطی نامہ ‘ چار ہزار اشعار پر مشتمل ہے جو دراصل سنسکرت کے مشہور حلقہ قصص ’’ شکا سب تتی ‘‘ سے ماخوذ ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غواصیؔ کی یہ تخلیق ضیا الدین بخشی کے ’ طوطی نامہ‘ کا دکنی منظوم ترجمہ ہے ۔ دو ہزار اشعار پر مشتمل غواصیؔ کی مثنوی ’سیف الملوک و بدیع الجما ل ‘ ، الف لیلیٰ کا قصہ ہے ۔ غواصیؔ کی شاعری کا کلیات بھی موجود ہے جس میں غزلیں اور مر ثیے شامل ہیں ۔ سلطان محمد قطب شاہ کے عہد حکومت میں غواصی ؔ کی شاعری کی پورے دکن میں دھوم تھی ۔ غواصی ؔ نے مثنوی ،قصیدہ ،غزل ،نظم، رباعی ،ترکیب بند اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی ۔غواصی ؔ کی شاعری کی مقبولیت کی وجہ سے عبداﷲ قطب شاہ کے دور میں اسے شاہی دربار تک رسائی حاصل ہو گئی۔ ملا وجہی ؔ کی مثنوی ’قطب مشتری ‘ شائع ہوئی تو اس کا موثر جواب دینے کی خاطر غواصیؔ نے ’سیف الملوک و بدیع الجمال ‘ تخلیق کی ۔ دونوں شاعروں کے اسلوب کی خاص بات یہ ہے کہ جہاں ملا وجہی ؔنے مفصل واقعات بیان کیے ہیں وہاں غواصی ؔ نے اختصار سے کام لیا ہے ۔ ملا وجہی بھی مثنوی کے اس رجحان ساز شاعر کی شہرت سے آگا ہ تھا اس لیے اُس نے اپنے اسلوب کو اس طرح نکھارا کہ پورے دکن میں اُسے سراہا جانے لگا ۔اس عہد کے مقبول شاعر مقیمی ؔ نے غواصی ؔ اور ملا وجہی کے اسلوب سے متاثر ہو کر ’’چندر بدن و مہیار ‘‘ تخلیق کی۔

لسانیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ متعدد تراکیب اور الفاظ ایسے ہیں جن پر ہندوی یا قدیم اردو کے دکھنی نمونوں کا گمان گزرتا ہے۔ ذیل میں ملا وجہی کی تصنیف ’’ سب رس ‘‘ سے امدادی افعال کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جو دکنی زبان کے لسانی ارتقا کی تفہیم میں مد ددیں گی:
پیدا کیا ،ہویدا کیا،خلاف کرنا،نُور بھرنا،مان دینا ،بیان کرنا ،ہات دھرنا،رہا گیا ،کہا گیا ،امداد دیوے ، فیض انپڑنا،آرام پانا ،دعا کرنا ،بات کرنا ،باٹ پانا ،امداد پانا ،جیو دینا ،بات بولنا ،گرہ دینا ،ہاٹ آنا ،چھلے (چھالے) آنا ،گھائل ہونا ،پر ہیز کرنا ،کا م گنوانا ،کام کرنا ،نظر پڑنا ،تازا رکھنا ،مدعا پانا ،چلنت چلنا ،کامل ہونا ،زندہ دِل ہونا ،تمیز کرنا ،کھڑا رہنا ،شرف پانا ،مول پانا ،میٹھا لگنا،فرصت پانا۔

ملا وجہی سال 1070ہجری میں زینہ ٔ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کو سدھار گیا۔حضرت سیّد حسن برہنہ شاہ کی درگاہ کی زمین نے دکنی ادب کے اِس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔

Related posts

Leave a Comment