مانندِ شمعِ مجلس شب اشک بار پایا
القصّہ میرکو ہم بے اختیار پایا
احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے
افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا
شہرِ دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا
اتنا نہ تجھ سے ملتے نَے دل کو کھو کے روتے
جیسا کیا تھا ہم نے ویسا ہی یار پایا
کیا اعتبار یاں کا پھر اُس کو خوار دیکھا
جس نے جہاں میں آکر کچھ اعتبار پایا
آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میرسے شب
واں جا کے صبح دیکھا مشتِ غبار پایا
Related posts
-
ڈاکٹر مظفر حنفی ۔۔۔ صور اسرافیل
اب تو بستر کو جلدی سے تہہ کر چکو لقمہ ہاتھوں میں ہے تو اسے پھینک... -
ڈاکٹر مظفر حنفی ۔۔۔ دوسری جلاوطنی
جب گیہوں کا دانا جنس کا سمبل تھا، اس کو چکھنے کی خاطر، میں جنت کو... -
ڈاکٹر مظفر حنفی ۔۔۔ مشرقی چیخیں
عرفی، مرا چہیتا چالیس دن کا بیٹا، آغوش میں ہے میری۔ آنکھیں گھما گھما کر، لاتیں...