ہمارے گھر پہ کبھی سائبان پڑتا نہیں یہ وہ زمیں ہے جہاں آسمان پڑتا نہیں پڑاؤ کرتے چلے راہ میں تو چلنا کیا سفر ہی کیا ہے اگر ہفت خوان پڑتا نہیں بجھانی ہو گی ہمیں خود ہی اپنے گھر کی آگ کہیں سے آئے گی امداد جان پڑتا نہیں مزے میں ہو جو تمھیں بے زمین رکھا ہے کہ فصل اگاتے نہیں ہو، لگان پڑتا نہیں عطا خلوص نے کی ہے یقین کی دولت گمان اس کے مرے درمیان پڑتا نہیں ہم احتجاج کسی رنگ میں نہیں کرتے ہمارے خون سے کوئی نشان پڑتا نہیں
Related posts
-
سید آل احمد ۔۔۔
سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی ملے ہیں زخم ترے قرب کی بہار سے... -
حفیظ جونپوری ۔۔۔۔ صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
صبح کو آئے ہو نکلے شام کے جاؤ بھی اب تم مرے کس کام کے ہاتھا... -
مرزا غالب ۔۔۔ جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا سویدا تا بلب زنجیر سے دودِ سپند آیا...