چھو کر حدِ فنا کو جوانی جواں ہوئی
جو آگ جل رہی تھی وہ آخر دھواں ہوئی
آمادہِ سفر کی نگاہیں تڑپ گئیں
سیٹی رُکی تو شام کی گاڑی رواں ہوئی
Related posts
-
نظر امروہوی
مرے ہی غم سے عبارت نہیں مری صورت ہر ایک شخص کا چہرہ کتاب جیسا ہے -
نظر امروہوی
خلاؤں میں بکھر جاتی یہ دنیا تو ذرّوں میں توانائی نہ ہوتی