کوشش کے باوجود بھی ساکن نہیں رہا
کچھ دن میں سامنے رہا، کچھ دن نہیں رہا
پہلے یہ ربط میری ضرورت بناؤ گے
اور پھر کہو گے رابطہ ممکن نہیں رہا
ہم ایک واردات سے تھوڑے ہی دور ہیں
وہ ہاتھ لگ گیا ہے مگر چھن نہیں رہا
اسکول کے دنوں سے مجھے جانتے ہو تم
میں آج تک سوال کیے بن نہیں رہا
اک رات اس نے چند ستارے بجھا دیے
اُس کو لگا تھا کوئی انھیں گن نہیں رہا
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...