آلِ احمد سرور ۔۔۔ فانی: شخصیت اور شاعری

شوکت علی خاں فانی بدایونی کی تاریخ پیدائش۱۳؍ ستمبر ۱۸۷۹ء ہے۔ ان کے انتقال کو اڑتالیس سال ہونے کو آئے۔ (تاریخ وفات ۲۲؍اگست ۱۹۴۱ء) اپنے دور میں فانی خاصے مقبول تھے۔ ان کے انتقال کے بعد فانی کے خلاف بھی بہت کچھ کہا گیا۔ آج فانی کو کچھ لوگ بھولتے جارہے ہیں۔ بہر حال فانی کی شاعری کے ازِسر نو مطالعے، ان کے ادبی کارنامے کی پرکھ، ان کی معنویت کے تعین کی ضرورت مسلم ہے۔ یہ مقالہ اسی سلسلے کی ایک حقیر کوشش ہے۔ ظاہر ہے کہ فانی کو…

Read More

اے ڈی راہی ۔۔۔ دوہے

سونے سب رستے پڑے ہوئے تھکن سے چور راہی کون بتائے گا منزل کتنی دور ۔۔۔ پائل کبھی نہ کھول دے ساجن دل کا راز دور دور تک جائے گی گھنگھرو کی آواز ۔۔۔۔۔ اچھا ہے کہ لگا نہیں انہیں پیار کا روگ آتے آتے آئیں گے راہ پہ اگلے لوگ

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ رضیہ سجاد ظہیر

رضیہ سجاد ظہیر رضیہ دلشاد ترقی پسند تحریک کے بانی سجاد ظہیر سے شادی (۱۹۳۸ء) کے بعد رضیہ سجاد ظہیر کے نام سے لکھنے لگیں۔انہوں نے تراجم بھی کیے،بچوں کے لیے لکھا۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی اُن کا ایک مقام ہے۔ اُن کو کردار نگاری و سراپا نگاری پر بڑی دسترس تھی۔وہ کردار نگاری ایسی کرتی تھیں کہ اُن کا افسانہ کرداری افسانہ بن جاتا تھا۔ وہ عام طور افسانوں کے لیے کردار اپنے گردو پیش اور ماحول سے منتخب کرتی تھیں اور اکثر افسانے واحد متکلم میں…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ خالدہ حسین

خالدہ حسین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خالدہ حسین ۱۸؍ جولائی ۱۹۳۸ ء کے روز لاہور میں پیدا ہوئیں۔پہلا افسانہ ’’نغموں کی طنابیں ٹوٹ گئیں ۱۹۵۶ء میں ’’قندیل‘‘ میں شائع ہوا۔ڈاکٹر اقبال حسین سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے چار سال بعد کراچی منتقل ہو گئیں اور درس و تدریس سے وابستہ رہیں۔اُ ن کے افسانے اکثر و بیشتر ادبِ لطیف، ماہِ نو، اوراق، سویرا، نیا دور، دریافت، علامت اور آج میں شائع ہوتے رہے۔اُن کے افسانوں کے مجموعے پہچان، دروازہ، مصروف عورت اور ہیں خواب میں ہنوز کے نام سے شائع ہوئے۔…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے

زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے جوانی کی ہے آمد، حسن کی ہر دم ترقی ہے تری صورت، ترا نقشہ ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے نہ آئے گا قرار اس کو نہ ممکن ہے قیام اس کو ہمارا دل ترا وعدہ ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے کبھی تو جستجو اس کی کبھی گم آپ ہو جانا مری وحشت مرا سودا، ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے غرورِ حسن ہے سر میں خیالِ دلبری…

Read More

میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا

اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ ملتفت بھی ہوا ناکسی سے ہمیں حجاب رہا نہ اٹھا لطف کچھ جوانی کا کم بہت موسمِ شباب رہا کارواں ہائے صبح ہوتے گیا میں ستم دیدہ محوِ خواب رہا ہجر میں جی ڈھہا گرے ہی رہے ضعف سے حالِ دل خراب رہا گھر سے آئے گلی میں سو باری یار بن دیر اضطراب رہا ہم سے سلجھے نہ اس کے الجھے بال جان کو اپنی پیچ و تاب رہا پردے میں کام یاں…

Read More