گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
Read MoreTag: اردو شاعری
استاد قمر جلالوی ۔۔۔ کسی کو دل مجھے دینا تو ناگوار نہیں
کسی کو دل مجھے دینا تو ناگوار نہیں مگر حضور زمانے کا اعتبار نہیں وہ آئیں فاتحہ پڑھنے اب اعتبار نہیں کہ رات ہو گئی دیکھا ہوا مزار نہیں کفن ہٹا کے وہ منہ بار بار دیکھتے ہیں ابھی انھیں مرے مرنے کا اعتبار نہیں
Read Moreاستاد قمر جلالوی ۔۔۔ کریں گے شکوۂ جورو جفا دل کھول کر اپنا
کریں گے شکوۂ جورو جفا دل کھول کر اپنا کہ یہ میدانِ محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا مکاں دیکھا کیے مڑ مڑ کے تا حدِ نظر اپنا جو بس چلتا تو لے آتے قفس میں گھر کا گھر اپنا بہے جب آنکھ سے آنسو بڑھا سوزِ جگر اپنا ہمیشہ مینہ پرستے میں جلا کرتا ہے گھر اپنا پسینہ، اشکِ حسرت، بے قراری، آخری ہچکی اکھٹا کر رہا ہوں آج سامانِ سفر اپنا یہ شب کا خواب یا رب فصلِ گل میں سچ نہ ہو جائے قفس…
Read Moreاستاد قمر جلالوی ۔۔۔ قطعہ
یہ مانا برق کے شعلے مرا گھر پھونک کر جاتے مگر کچھ حادثے پھولوں کے اوپر بھی گزر جاتے مرے کہنے سے گر اے ہم قفس خاموش ہو جاتا نہ تیرے بال و پَر جاتے نہ میرے بال و پر جاتے
Read Moreاستاد قمر جلالوی ۔۔۔ مجھ پر ہے یہ نزع کا عالم اور
مجھ پر ہے یہ نزع کا عالم اور پھر سوچ لو باقی تو نہیں کوئی ستم اور ہے وعدہ خلافی کے علاوہ بھی ستم اور گر تم نہ خفا ہو تو بتا دیں تمھیں ہم اور یہ مئے ہے ذرا سوچ لے اے شیخِ حرم اور تو پہلے پہل پیتا ہے کم اور ارے کم اور وہ پوچھتے ہیں دیکھئے یہ طرفہ ستم اور کس کس نے ستایا ہے تجھے ایک تو ہم اور وہ دیکھ لو احباب لیے جاتے ہیں میت لو کھاؤ مریضِ غم فرقت کی قسم اور…
Read Moreاستاد قمر جلالوی ۔۔۔
داستاں اوراقِ گل پر تھی مجھی ناشاد کی بلبلوں نے عمر بھر میری کہانی یاد کی مجھ سے روٹھا ہے خودی دیکھو بتِ جلاد کی مدعا یہ ہے کہ کیوں اللہ سے فریاد کی قبر ٹھوکر سے مٹا دی عاشقِ ناشاد کی یہ بھی اک تاریخ تھی ظالم تری بیداد کی کیا ملے دیکھیں اسیروں کو سزا فریاد کی آج کچھ بدلی ہوئی سی ہے نظر صیاد کی رات میں بلبل تجھے سوجھی تو ہے فریاد کی آنکھ سوتے سے نہ کھل جائے کہیں صیاد کی آگیا ان کو رحم…
Read Moreاکبر الہ آبادی
ایسا شوق نہ کرنا اکبر گورے کو نہ بنانا سالا بھائی رنگ یہی ہے اچھا ہم بھی کالے یار بھی کالا
Read Moreآکاش اتھرو
بانٹ لیا کرتے تھے دونوں گھر کا دکھ وہ بھی دفتر تھوڑا جلدی آتی تھی
Read Moreقابل اجمیری
دن نکلتا ہے کس تمنا میں رات کس آسرے پہ آتی ہے
Read Moreقابل اجمیری … وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد
وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد سحر تھی شام سے پہلے سحر ہے شام کے بعد مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز مرے سلام سے پہلے مرے سلام کے بعد چرغِ بزمِ ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ جلے تھے شام سے پہلے بجھے ہیں شام کے بعد یہ رات کچھ بھی نہیں تھی یہ رات سب کچھ ہے طلوعِ جام سے پہلے طلوعِ جام کے بعد رہِ طلب میں قدم لڑکھڑا ہی جاتے ہیں کسی مقام سے پہلے کسی مقام کے بعد
Read More