مظفر حنفی ۔۔۔ درد نے دل کو گدگدایا تو

درد نے دل کو گدگدایا تو کچھ شرارہ سا تلملایا تو آپ دریا کے ساتھ جاتے ہیں اور وہ لوٹ کر نہ آیا تو دیکھنا، آسماں کی خیر نہیں خاکساری نے سر اُٹھایا تو شاخ کانٹوں بھری سہی لیکن ہاتھ اس نے ادھر بڑھایا تو کیوں اُٹھاتے ہو ریت کی دیوار آ گیا کوئی زیرِ سایہ تو دُور تک لہریں کھِلکھِلانے لگیں اک دِیا نہر میں بہایا تو

Read More