شاہد فرید ۔۔۔ خود کو وحشت میں ڈال لیتے ہیں

خود کو وحشت میں ڈال لیتے ہیں
لوگ اندیشے پال لیتے ہیں

کیوں لڑائی کریں محبت پر
قرعۂ  فال ڈال لیتے ہیں

چوم لوں تم کو دل کرے اکثر
خود کو لیکن سنبھال لیتے ہیں

تھوڑی فرصت کے آج کل دن ہیں
گھر کو اب دیکھ بھال لیتے ہیں

ہجر کا زخم بھرنے میں دیکھیں
وقت کیا ماہ و سال لیتے ہیں

ذہن و دل جب الجھتے ہیں شاہد
سوچ شعروں میں ڈھال لیتے ہیں

Related posts

Leave a Comment