علی اصغر عباس ۔۔۔ آزمایش تھی کوئی یا امتحاں رکھا ہوا

آزمایش تھی کوئی یا امتحاں رکھا ہوا
ایک بندش میں مرا یہ جسم و جاں رکھا ہوا

ایک ہی کمزور لمحے میں مکمل ہوگیا
میں کہ جو مضبوط بھی تھا ناتواں رکھا ہوا

توڑنا آساں بہت ہے، پھاندنا مشکل بہت
ایک بندھن جو ہے اپنے درمیاں رکھا ہوا

کارِ لاحاصل رہی ہے آج تک کی زندگی
کارنس پہ ہے یہ خالی مرتباں رکھا ہوا

بے سرو سامانیوں میں کاٹ دی ساری حیات
وہم سا تھابے یقینی میں گماں رکھا ہوا

شوق تھا سنسان راہوں سے گذرنے کا مجھے
مل ہی جاتا تھا کبھی میں خود کو واں رکھا ہوا

ٹوٹ کر گرنے سے پہلے لہلہایا تھا شجر
اس کی شاخوں میں کوئی تھا آشیاں رکھا ہوا

شہر کی یہ رونقیں تنہائیوں کا شور ہیں
دیکھیے ہر کوئی تنہا ہے یہاں رکھا ہوا

اک ادھورا واقعہ ہوں میں علی اصغر فقط
کچھ نہیں پردے میں زیبِ داستاں رکھا ہوا

Related posts

Leave a Comment