محسن اسرار

 

مرے وجود کا ہر لازمہ سوالی ہے
یقین کر، مرا کشکول اب بھی خالی ہے

بطورِ خاص ابھی تک تو کچھ ہوا ہی نہیں
مری طرح مری دنیا بھی لاابالی ہے

بھلے لگے ہیں مجھے گھاس پھوس والے لوگ
سو میں نے خود بھی یہاں جھونپڑی بنا لی ہے

میں سارا دن کی کمائی سے ہاتھ دھو بیٹھا
کہا جب اس نے کہ اب شام ہونے والی ہے

ہمارے پینے کا پانی بھی لے گیا سیلاب
کوئی بتائے کہ یہ کیسی خشک سالی ہے

تمھیں یہ حق ہی نہیں ہم سے تم بچھڑ جاؤ
تعلقات کی بنیاد ہم نے ڈالی ہے

فضول ہے لب و عارض سنوارنا تیرا
مری نگاہ کہیں اور جانے والی ہے

Related posts

Leave a Comment